
Getty Imagesٹاٹا گروپ کے موجودہ سربراہ این چندرشیکرناپنے سربراہ رتن ٹاٹا کی وفات کے ایک سال بعد انڈیا کا سب سے بڑے صنعتی اداروں میں سے ایک ٹاٹا گروپ، جو نمک فروخت کرنے سے لے کر سٹیل کی صنعت تک درجنوں شعبوں میں کام کرتا ہے، کئی بحرانوں میں گھرا ہوا نظر آتا ہے۔رتن ٹاٹا نے ٹاٹا گروپ کو ایک جدید، عالمی اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ادارے میں تبدیل کیا اور گذشتہ سال اس گروپ کی مجموعی مالی حیثیت لگ بھگ 328 ارب ڈالر تھی۔یہ کاروباری سلطنت -- جو جیگوار لینڈ روور (جے ایل آر) اور ٹیٹلی ٹی (چائے) جیسے مشہور برانڈز کی مالک ہے اور انڈیا میں ایپل کے لیے آئی فون بھی تیار کرتی ہے -- ایک بار پھر اندرونی کشمکش کا شکار دکھائی دیتی ہے۔کئی مہینوں سے ٹاٹا گروپ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے درمیان جاری طاقت کی کشمکش نے اندرونی اختلافات کو بےنقاب کر دیا ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی تاکہ سنہ 2016 کے اس کاروباری تنازع کی تاریخ نہ دہرائی جائے جب سابق چیئرمین سائرس مستری کو گروپ سے برطرف کیا گیا تھا۔تازہ رپورٹس کے مطابق رتن ٹاٹا کے قریبی ساتھی اور ٹاٹا ٹرسٹس کے بورڈ کے ایک رُکن مہلی مستری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بی بی سی اس اطلاع کی ابھی تک آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ٹاٹا کارپوریشن کی تاریخ پر ایک اہم کتاب لکھنے والے میری لینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر میرچا رائیانو اس تنازع کو 'پرانے اور نامکمل معاملات کا دوبارہ سر اٹھانا‘ قرار دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ٹاٹا گروپ کو کون چلاتا ہے، اور اکثریتی شیئر ہولڈرز (یعنی فلاحی ادارہ ٹاٹا ٹرسٹس، جو مدر کمپنی ٹاٹا سنز کے 66 فیصد حصص کا مالک ہے) کاروباری فیصلوں میں کتنی مداخلت کر سکتے ہیں۔ٹاٹا گروپ کا ڈھانچہ منفرد ہے، کیونکہ سٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنی ’ٹاٹا سنز‘ کے کنٹرولنگ شیئرز ایک فلاحی تنظیم ٹاٹا ٹرسٹس کے پاس ہیں۔ اس سے گروپ کو ٹیکس اور قانونی فوائد تو حاصل ہوئے ہیں اور اسے خیراتی سرگرمیاں کرنے میں بھی مدد ملی ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس کی تجارتی اور غیر منافع بخش قسم کی پیچیدہ نوعیت نے گورننس کے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔یہ تازہ اختلاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹاٹا گروپ نئے شعبوں جیسے سیمی کنڈکٹرز اور الیکٹرک گاڑیوں کے شعبوں میںقدم بڑھاتے ہوئے شدید کاروباری دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، اور ساتھ ہی ایئر انڈیا کو ایک مہلک حادثے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔خیال رہے کہ ٹاٹا نے ایئر انڈیا کو سنہ2021 میں حکومت سے خریدا تھا۔تو آخر غلطی کہاں ہوئی؟AFP via Getty Images2016 میں ٹاٹا کی کاروباری سلطنت کو ایک قانونی تنازع نے اس وقت اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جب سابق چیئرمین سائرس مستری (بائیں) کو گروپ سے فارغ کر دیا گیاٹاٹا گروپ نے اس اختلاف پر کوئی عوامی بیان جاری نہیں کیا ہے، مگر وسیع پیمانے پر کہا جا رہا ہے کہ تنازع بورڈ میں نامزدگیوں، فنڈنگ کی منظوریوں اور ٹاٹا سنز کو سٹاک مارکیٹ میں لانے کے معاملے پر ٹرسٹیوں کے درمیان اختلافات سے پیدا ہوا ہے۔ٹاٹا سنز وہ ہولڈنگ کمپنی ہے جو 26 عوامی طور پر لسٹڈ ٹاٹا کمپنیوں کی مالک ہے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 328 ارب ڈالر ہے۔ٹاٹا گروپ کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ ٹرسٹی زیادہ اثر و رسوخ چاہتے ہیں تاکہ وہ ٹاٹا سنز کے اہم فیصلوں اور بورڈ کی نامزدگیوں پر زیادہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔ ٹاٹا ٹرسٹس کے تین نمائندے ٹاٹا سنز کے بورڈ میں شامل ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ذریعے نے بتایا کہ ’ٹاٹا ٹرسٹس کے نمائندوں کے پاس پیرنٹ کمپنی کے فیصلوں پر ویٹو کا حق تو ہے، لیکن اُن کا کردار بنیادی طور پر نگرانی کا ہوتا ہے، فیصلہ سازی کا نہیں۔ لیکن اب کچھ ٹرسٹی تجارتی فیصلوں میں براہِ راست اختیار چاہتے ہیں۔‘ایک اور بڑا اختلاف ایس پی گروپ سے متعلق ہے، جو ٹاٹا سنز کا سب سے بڑا اقلیتی شیئر ہولڈر ہے اور اس کے پاس 18 فیصد حصص ہیں۔ یہ گروپ کمپنی کو پبلک لسٹڈ کمپنی کی فہرست میں لانے پر زور دے رہا ہے۔ لیکن زیادہ تر ٹرسٹی اس خیال کے مخالف ہیں۔Getty Imagesجون میں ایئر انڈیا کے حادثے کے بعد سے ٹاٹا گروپ اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہےذرائع کے مطابق ’خدشہ ہے کہ عوامی فہرست میں آنے سے ٹرسٹ کا فیصلہ سازی پر کنٹرول کم ہو جائے گا، طویل المدتی وژن متاثر ہو گا اور کمپنی کو مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کئی نئے منصوبے ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔‘تاہم ایس پی گروپ کا کہنا ہے کہ عوامی فہرست میں آنا ایک ’اخلاقی اور سماجی ضرورت‘ ہے جو ٹاٹا شیئر ہولڈرز کی ساکھ میں اضافہ کرے گا اور کمپنی میں شفافیت اور بہتر نظم و نسق کو فروغ دے گا۔نہ ٹاٹا سنز اور نہ ہی ٹاٹا ٹرسٹس نے بی بی سی کے تفصیلی سوالات کا جواب دیا ہے۔ لیکن پروفیسر رائیانو کے مطابق یہ تنازع گروپ کو درپیش ایک حقیقی مخمصے کو ظاہر کرتا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ پبلک لسٹنگ میں جانا اس رجحان کے خلاف ہو گا جس کی پیروی امریکہ اور یورپ کے کئی بڑے ادارے کر رہے ہیں، یعنی ’استحکام اور پائیداری کے لیے فاؤنڈیشن کی ملکیت کو ترجیح دینا‘۔ انھوں نے کہا کہ ٹاٹا گروپ خود اس کی ایک بڑی مثال ہے۔انھوں نے کہا کہ ’لیکن ساتھ ہی، نجی یا محدود ملکیت رکھنے والی کمپنیاں بیرونی نگرانی سے کم متاثر ہوتی ہیں، جس سے اختلافات بڑھ سکتے ہیں اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایانوئل ٹاٹا: 100 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن والی کمپنی کے نئے سربراہ جو رتن ٹاٹا کے سوتیلے بھائی ہیںانڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟نانی سے قرض لے کر شروع کیا گیا کاروبار، جس کی آمدن اب اربوں میں ہے: ’والدہ نے سکھایا کہ تم وہ سب بن سکتی ہو، جو تم چاہتی ہو‘دلیپ چیریان، جو کبھی ٹاٹا کے سابق چیئرمین سائرس مستری کے قریبی ساتھی تھے، کے مطابق یہ تنازع پہلے سے ہی کارپوریٹ گورننس پر سوالات اٹھا رہا ہے اور انڈیا کے سب سے قدیم اور معتبر کاروباری گروپ کی شبیہ کو متاثر کر رہا ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ تنازع ان مشکلات میں ایک اور اضافہ ہے جو حال ہی میں ٹاٹا گروپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا چکی ہیں۔‘ اُن کا اشارہ اس سال کے اوائل میں ایئر انڈیا کے المناک حادثے اور جے ایل آر کے ایک اہم یونٹ پر سائبر حملے کی طرف تھا، جس کی وجہ سے ستمبر میں برطانیہ کی کاروں کی پیداوار کو 70 سال کی سب سے کم سطح پر پہنچا دیا تھا۔مزید یہ کہ ٹی سی ایس، جو گروپ کی نمایاں سافٹ ویئر آؤٹ سورسنگ کمپنی ہے اور گروپ کی کل آمدنی کا تقریباً نصف حصہ فراہم کرتی ہے، اپنے الگ مسائل سے دوچار ہے۔ ان مسائل میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی برطرفیاں اور حال ہی میں برطانوی ریٹیلر مارکس اینڈ سپینسر کی جانب سے ایک ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کا خاتمہ شامل ہے۔دلیپ چیریان نے کہا کہ ’یہ بورڈ روم کی لڑائیاں مزید الجھن پیدا کرتی ہیں۔ اب صرف حصص کی کارکردگی ہی تشویش کا باعث نہیں ہو گی، بلکہ سرمایہ کاروں کے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ وہ دراصل ٹاٹا گروپ میں کس کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں۔‘Bloomberg via Getty Imagesستمبر میں سائبر حملے کے نتیجے میں جیگوار لینڈ روور فیکٹریوں کو پانچ ہفتوں کے لیے بند کر دیا گیا تھاان ہنگاموں کے دوران، اطلاعات کے مطابق ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندر شیکرن کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی گئی ہے۔ٹاٹا سنز کے قریبی ایک ذریعے نے بتایا کہ ’چیئرمین اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ تنازع بورڈ کے اندر نہیں بلکہ ٹرسٹیوں کے درمیان ہے۔ لیکن یہ ان کے لیے ایک غیر ضروری توجہ بٹانے والی صورتحال ہے۔‘تاہم ٹاٹا گروپ کے لیے بحرانوں سے نمٹنا کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی میں بھی جب رتن ٹاٹا نے گروپ کی باگ ڈور سنبھالی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی، تو انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چند سال قبل سائرس مستری کی برطرفی کے بعد جو تنازع بھڑکا تھا، وہ بھی اب تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔پروفیسر رائیانو کے مطابق، البتہ اس بار ایک بڑا فرق موجود ہے۔اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس وقت کم کارکردگی دکھانے والی کمپنیاں ٹی سی ایس کے سہارے قائم تھیں، جس نے گروپ کے تسلسل کو ممکن بنایا۔ اس سے پہلے یہی کردار ٹاٹا سٹیل ادا کرتا تھا۔‘فی الحال، جب کہ ٹی سی ایس کا کاروباری ماڈل غیر یقینی صورتِحال کا شکار ہے اور گروپ کی مجموعی آمدنی میں اس کا حصہ دباؤ میں ہے، ایسے میں گروپ کے لیے کوئی نئی ’سہارا دینے والی بنیاد‘ ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔ اور ایسی صورتحال میں اندرونی اختلافات سے نمٹنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔پروفیسر رائیانو نے کہا کہ ’یہ صورتحال بظاہر عدم استحکام اور قلیل المدتی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایک نیا، زیادہ شفاف اور جوابدہ ڈھانچہ اُبھرے۔‘رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاانڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟نانی سے قرض لے کر شروع کیا گیا کاروبار، جس کی آمدن اب اربوں میں ہے: ’والدہ نے سکھایا کہ تم وہ سب بن سکتی ہو، جو تم چاہتی ہو‘شاپور جی سکلت: انڈیا کے امیر خاندان میں پیدا ہونے والے سیاستدان، جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’ٹاٹا‘ استعمال نہ کیا’وزنجام‘: 180 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی گہرے پانی کی بندرگاہ انڈیا کے لیے اتنی خاص کیوں ہے؟دنیا کے بینکار: وینس کے تاجروں سے زیادہ دولتمند ہندوستانی ساہوکار جن کے قرضوں کی مدد سے انگریزوں نے انڈیا پر قبضہ کیا