
شام میں ایک نئی حکومت تو آ گئی ہے لیکن ملک کے شمال مشرق میں کُردوں کے کنٹرول میں موجود علاقوں میں ایک پُرانے دشمن یعنی نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی اب بھی جاری ہے۔یہ ایک ایسا تنازع ہے جو سُرخیوں سے غائب ہو گیا کیونکہ دنیا میں کئی اور بڑی جنگیں جاری ہیں۔دہشتگردی کے خلاف سرگرم کرد حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے گروہ ایک بار پھر متحد ہو رہے ہیں اور حملوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ولید عبدالباسط شیخ موسیٰ کو جنون کی حد تک موٹرسائیکلوں کا شوق تھا اور وہ بالآخر اس برس جنوری میں ایک موٹر بائیک خریدنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔لیکن 21 سالہ موسیٰ اپنی اس موٹربائیک سے صرف چند ہی ہفتے محظوظ ہو سکے۔ وہ فروری میں شام کے شمال مشرقی علاقے میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔موسیٰ کو شدت پسندوں سے لڑنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ صرف 15 برس کی عمر میں اپنے گھر سے بھاگ گئے تھے تاکہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) میں شمولیت اختیار کر سکیں۔لیکن ان کا خاندان انھیں واپس گھر لے آیا تھا کیونکہ وہ اس وقت نابالغ تھے لیکن تین برس بعد انھیں ایس ڈی ایف میں شامل کر لیا گیا۔قامشلی شہر میں ان کا خاندان ایک صحن میں جمع ہو کر ہمیں موسیٰ کی مختصر زندگی کا احوال سُنا رہا تھا۔ان کی والدہ روجن محمد کہتی ہیں کہ ’میں اسے ہر طرف دیکھتی ہوں۔ اس نے ہمارے لیے بہت سی یادیں چھوڑی ہیں۔‘ولید سمیت روجن کے آٹھ بچے ہیں اور وہ تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ’جب اُسے کچھ چاہیے ہوتا تھا تو وہ میرے پاس آ کر مجھے بوسہ دیتا تھا۔‘روجن یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’وہ کہتا تھا کہ کیا آپ مجھے کچھ پیسے دے سکتی ہیں تاکہ میں سگریٹ خرید سکوں؟‘اس نوجوان جنگجو کی لاش ڈیم کے قریب ان کے کزن کو اس مقام پر ملی تھی، جہاں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ جاری تھی۔اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے موسیٰ کی والدہ نام نہاد دولت اسلامیہ سے انتقام لینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔روجن نے شدت پسند گروہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے ہمارے دل توڑے ہیں، ہم نے کتنے سارے نوجوانوں کو دفن کیا۔ کاش داعش مکمل طور پر فنا ہو جائے، میں امید کرتی ہوں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا۔‘تاہم کرد حکام کا کہنا ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ نہ صرف بھرتیاں کر رہی ہے بلکہ بشار الاسد کی معزولی کے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی کے خلا سے فائدہ اُٹھا کر خود کو منظم بھی کر رہی ہے۔گذشتہ ایک دہائی سے نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے لڑنے والے گروہ پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جی) کے ترجمان سیامند علی کا کہنا ہے کہ ’حملوں میں دس گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔ انھوں نےافراتفری سے فائدہ اُٹھایا اور سابق حکومت کے گوداموں اور ڈپوؤں سے بہت سارا اسلحہ حاصل کیا۔‘سیامند کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے آپریشنز کے علاقوں کو بڑھا دیا اور حملوں کا طریقہ کار بدل لیا، پہلے وہ مار کر بھاگتے تھے مگر اب چیک پوائنٹس پر حملے کر رہے ہیں اور بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں۔’ڈیوڈ کوریڈور‘: کیا اسرائیل دروز اور کُرد آبادیوں کو متحد کرنے اور شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے مبینہ منصوبے پر عمل پیرا ہے؟شام کی نئی ریاستی علامت میں ایک عقاب اور تین ستاروں کی کہانیکیا شام بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد آزاد ہوگیا؟’دروز‘ کون ہیں اور اسرائیل اس مذہبی اقلیت کی ’حفاظت‘ کے لیے شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟سیامند کے دفتر کی دیواروں پر وائے پی جی کے ان تمام اراکین کی تصاویر آویزاں ہیں، جو نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔امریکہ کے لیے وائے پی جی شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی ہے لیکن ترکی کے لیے یہ ایک دہشتگرد گروہ ہے۔گذشتہ ایک سال میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے دوران اس گروپ کے 30 اراکین مارے جا چکے ہیں جبکہ سیامند کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران نام نہاد دولت اسلامیہ کے 95 شدت پسند بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔کرد حکام کا کہنا ہے کہ ان کے قید خانے نام نہاد دولت اسلامیہ کے مشتبہ اراکین سے بھرے ہوئے ہیں۔ شام کے مشرق میں واقع قید خانوں میں برطانیہ، امریکہ، روس اور آسٹریلیا سمیت 48 ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً آٹھ ہزار افراد بند ہیں۔اب وہ بے گناہ ہوں یا گناہ گار، ان پر نہ ہی مقدمات چلائے گئے ہیں اور نہ ہی انھیں قصوروار پایا گیا۔نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مشتبہ شدت پسندوں کے لیے بنایا گیا سب سے بڑا جیل الحسکہ شہر میں ہے۔ اس جیل کے اردگرد بلند دیواریں موجود ہیں اور جگہ جگہ واچ ٹاورز بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں موجود چھوٹے دروازے میں موجود ایک خلا سے ہم کمروں میں بند ان افراد کو دیکھ سکتے ہیں جو کبھی شام اور عراق میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔جیل کے کمروں میں موجود یہ زیرِ حراست افراد کتھئی لباس میں ملبوس تھے، ان کی داڑھیاں بنی ہوئی تھیں اور وہ پتلے سے گدّوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بالکل ویسے ہی دبلے اور کمزور نظر آ رہے تھے جیسی اب ان کی ’خلافت‘ ہو چکی ہے۔جیل حکام کا کہنا ہے کہ یہاں بند تمام افراد مارچ 2019 تک نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ تھے۔کچھ قیدیوں کے منھ پر ماسک لگے ہوئے تھے تاکہ کسی بھی وبا سے بچا جا سکے۔ یہاں ٹی وی ہے نہ ریڈیو اور نہ ہی فون۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سابق جہادی رہنما احمد الشرع نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔تایم جیل میں موجود ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ سلاخوں کے پیچھے بھی خود کو منظم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہر ونگ میں ایک امیر یا رہنما ہے جو فتوے جاری کرتا ہے۔ان کے مطابق نام نہاد دولت اسلامیہ کے ’رہنما اب بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور احکامات جاری کرتے ہیں۔‘لندن سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی حمزہ پرویز نے ہم سے بات کرنے کی حامی بھری۔سابق اکاونٹنٹ نے اعتراف کیا کہ وہ سنہ 2014 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجو بنے تھے اور اس وقت ان کی عمر 21 برس تھی۔ اس کے بعد ان کی برطانوی شہریت ختم کر دی گئی۔جب ان سے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ظلم و جبر کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس وقت متعدد ’افسوس ناک‘ کام ہوئے۔’ایسے بہت سے کام ہوئے جن سے میں اتفاق نہیں کرتا، کچھ وہ کام بھی تھے جن سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ میں کوئی انچارج نہیں تھا، معمولی سپاہی تھا۔‘حمزہ کہتے ہیں کہ ان کی جان اب خطرے میں ہے۔ ’میں بسترِ مرگ پر ہوں جہاں تپ دق پھیلا ہوا ہے۔ میں کسی بھی لمحے مر سکتا ہوں۔‘جیل میں برسوں گزارنے کے بعد حمزہ برطانیہ واپسی کے لیے گڑگڑا رہے ہیں۔’جیل میں موجود میں اور دیگر برطانوی شہری کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ ہم نے جو کیا وہ کیا۔ ہم نے نام نہاد دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کیا، یہ کچھ ایسا نہیں ہے جو ہم چھپا سکیں۔‘تاہم برطانیہ یا دیگر ممالک اپنے شہریوں کو واپس بُلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ایسے میں کرد فورسز ان شدت پسندوں اور ان کے خاندانوں کے 34 ہزار افراد کو سنبھال رہے ہیں۔ان کی بیویاں اور بچے پاس ہی موجود ٹینٹس میں موجود ہیں۔یہاں شام کے صحرا میں روج کیمپ بھی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے لندن سے تعلق رکھنے والی مہک اسلم فرار ہونا چاہتی ہیں۔ انھوں نے ہم سے مینیجر کے کمرے میں ملاقات کی تھی، انھوں نے برقع پہنا ہوا تھا، منھ کو ماسک سے ڈھکا ہوا تھا اور لنگڑا کر چل رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کرد فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ ایک گولی سے زخمی ہوئی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بنگالی شوہر شاہان چوہدری کے ساتھ شام ’صرف امداد پہنچانے‘ آئی تھیں اور یہاں ’کیک بنا کر‘ گزر بسر کر رہی تھیں۔اب وہ دونوں جیل میں ہیں اور ان کی برطانوی شہریت بھی ختم کر دی گئی۔چار بچوں کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی نام نہاد دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار نہیں کی تاہم وہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ یہاں اپنے بچوں کے ساتھ آئی تھیں اور ان کی سب سے بڑی بیٹی یہاں ایک دھماکے میں ہلاک ہوئی تھی۔مہک کا کہنا ہے کہ اس جیل میں ان کے بچے بیمار ہو گئے ہیں جن میں ان کا آٹھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ان کا کہنا ہے ان کے بچوں کو واپس برطانیہ لے جانے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن وہ اپنی والدہ کے بغیر واپس نہیں جانا چاہتے۔میں نے انھیں یاد دلایا کہ یہاں خلافت کے تحت رہنے کا انتخاب ان کا تھا، جہاں نام نہاد دولتِ اسلامیہ عام شہریوں کا قتل کر رہی تھی، یزیدی خواتین کا ریپ کر رہے تھے اور ان کو غلام بنایا جا رہا تھا۔مہک نے جواب دیا کہ ’مجھے اس وقت یزیدیوں کے بارے میں نہیں معلوم تھا، یا یہ کہ لوگوں کہ عمارتوں کے اوپر سے پھینکا جا رہا ہے۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔‘میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ خلافت کی واپسی دیکھنا چاہیں گی تو انھوں نے کہا کہ ’کبھی کبھی چیزوں کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ جو میں نے دیکھا وہ اسلام کی صحیح نمائندگی تھی۔‘لیکن یہاں روج سے بھی زیادہ خطرناک مقامات ہیں۔ الہول ایک ایسی جگہ ہے جہاں تقریباً چھ ہزار غیرملکی شدت پسندوں کو رکھا گیا ہے۔یہاں ہمیں مسلح گارڈ کی سکیورٹی میں لایا گیا تھا، جب ہم محتاط انداز میں اندر داخل ہوئے تو ہم نے علاقے میں دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ گارڈز نے ہمیں بتایا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں علاقے سے باہر سے لوگ آئے ہیں اور شاید ہم پر حملہ ہو جائے۔برقع پوش خواتین وہاں فوراً ہی جمع ہو گئیں۔ ایک نے میرے سوال کا جواب اپنی گردن پر انگلی پھیرنے کے اشارے سے دیا، جیسے گلا کاٹنے کا کہہ رہی ہوں۔یہاں بہت سارے بچوں نے ہمیں شہادت کی انگلی سے اشارے کیے۔ ہم نے یہاں اپنا دورہ مختصر کیا اور وہاں سے چلے گئے۔اس کے اردگر کے علاقوں میں ایس ڈی ایف کے گارڈز گشت کرتے ہیں۔ ہم بھی صحرا میں ان کے ساتھ چلے گئے۔ایک کمانڈر نے بتایا کہ ’یہاں ہر طرف سلیپر سیلز ہیں۔‘ان کے مطابق یہ گروہ جیل سے نوجوانوں کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی متعدد کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔یہاں خاردار تاروں کے پیچھے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ایک نئی نسل بڑی ہو رہی ہے اور ان کا ورثہ اس گروہ کا ظلم ہے۔روج کیمپ میں موجود ایک خاتون حکمیہ ابراہیم نے مجھے بتایا تھا کہ ’ہمیں اپنے بچوں کی فکر ہے۔ ان کو اس گٹر میں بڑھتا ہوا اور ان نظریات کو اپناتا ہوا دیکھ کر ہمیں برا لگتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہاں رہ کر شاید وہ اپنے والدوں سے زیادہ سخت گیر ہو جائیں گے۔’یہ نام نہاد دولت اسلامیہ کی نئی شکل کے بیج ہیں۔ شاید پچھلی والی نسل سے بھی زیادہ طاقتور۔‘’ڈیوڈ کوریڈور‘: کیا اسرائیل دروز اور کُرد آبادیوں کو متحد کرنے اور شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے مبینہ منصوبے پر عمل پیرا ہے؟’دروز‘ کون ہیں اور اسرائیل اس مذہبی اقلیت کی ’حفاظت‘ کے لیے شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟شام کی نئی ریاستی علامت میں ایک عقاب اور تین ستاروں کی کہانیحافظ الاسد: ’پُراسرار شخصیت‘ کے مالک شام کے سابق صدر جو آخری سانس تک اسرائیل سے لڑتے رہےکیا شام بشار الاسد کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد آزاد ہوگیا؟