پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟


Getty Imagesپاکستانی حکومت اور افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے درمیان استنبول میں تین روزہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور ماضی کے ’برادرانہ‘ تعلقات اب تلخی میں بدل رہے ہیں۔افغانستان میں طالبان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ماضی میں کیسے تھے اور ان کی موجودہ نوعیت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے شاید پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے دو بیانات ہی کافی ہیں۔13 ستمبر 2020 کو خواجہ آصف نے اس وقت کے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان رہنما عبدالغنی برادر کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’طاقتیں تمھاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔‘سوشل میڈیا پر اس پوسٹ کو تقریباً پانچ برس گزر چکے ہیں اور خواجہ آصف اب پاکستان کے وزیرِ دفاع ہیں۔29 اکتوبر 2025 کو اپنے ایک طویل بیان میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’پاکستان واضح کرتا ہے کہ اسے طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انھیں غاروں میں چھپنے کے لیے مجبور کرنے میں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔‘پاکستان حالیہ کئی مہینوں سے الزام عائد کر رہا ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین کا استعمال کر کے پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔ افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے آئے ہیں۔رواں مہینے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سرحدی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی اور دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے کا بھاری جانی و مالی نقصان کرنے کے دعوے کیے گئے۔Reutersیہ جھڑپیں دوحہ میں مذاکرات کے بعد 19 اکتوبر کو جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بند ہوئیں اور دونوں ممالک نے استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور پر اتفاق کیا تاہم پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے مطابق یہ مذاکرات ’بے نتیجہ‘ رہے ہیں۔ترکی میں ہونے والے مذاکرات میں افغان وفد میں شامل سہیل شاہین سے پاکستان کے وزیرِ اطلاعات کے اس بیان کے متعلق پوچھا گیا تو سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا ایک اور دور ہونا چاہیے۔طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور قطر میں افغانستان کے سفیر سہیل شاہین نے کہا کہ عام طور پر اس طرح کے مذاکرات میں ایک ہی بیٹھک یا ایک ہی دور میں حتمی معاہدے نہیں ہوتے ہیں۔استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’طالبان رجیم کو چاہیے کہ اپنے انجام کا حساب ضرور رکھیں کیونکہ پاکستان کے عزم اور صلاحیتوں کو آزمانا ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔‘افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواجہ آصف کے بیان پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بی بی سی نے ان کا مؤقف جاننے کے لیے افغانستان میں طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور دوحہ میں نمائندے سہیل شاہین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔واضح رہے کہ خواجہ آصف کچھ دن قبل مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں طالبان کو ’کھُلی جنگ‘ کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ اس ماحول میں بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’کھُلی جنگ‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ صرف ایک روایتی جنگ ہو گی یا اس کا کوئی معاشی پہلو بھی ہو گا؟ کیا پاکستان مغرب میں افغانستان اور مشرق میں انڈیا کے ساتھ دو محاذوں پر تناؤ کا متحمل ہو سکتا ہے؟کیا پاکستان اور افغانستان باقاعدہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟اس خطے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور مبصرین دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی سنگینی سے تو انکار نہیں کرتے لیکن وہ اسے باقاعدہ جنگ قرار دینے سے گریز کر رہے ہیں۔سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک پی ایچ ڈی ریسرچر اور پاکستان میں سکیورٹی اور سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کار محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’یہ باقاعدہ جنگ نہیں ہو گی بلکہ ایک طویل تنازع ہوگا۔‘’پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹکراؤ ایک طویل المدت تنازع ہو گا۔‘استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟سڑک کنارے سینکڑوں کنٹینروں کی قطاریں، ویران منڈیاں اور ’لاکھوں کا نقصان‘: بی بی سی نے طورخم سرحد کے نزدیک کیا دیکھا؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں شامل ترک انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم قالن کون ہیں؟سیاسی مخالفتیا مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف: پاکستانی فوج کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟محمد فیصل اس تنازع کو سمجھانے کے لیے ترکی اور کُرد پی کے کے درمیان دہائیوں پر محیط تنازع کی مثال دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔دیگر تجزیہ کار بھی اس نقطے پر متفق نظر آتے ہیں۔ سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ کہ ’کھلی جنگ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دونوں ممالک کے مابین روایتی جنگ شروع ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ لڑائی پھیلے گی۔‘’افغانستان کے پاس روایتی فوج نہیں جو ایک باقاعدہ جنگ کر سکے اور پاکستان کو سرحد پر فوجیں بھجوانی پڑیں تاہم سرحد پر جھڑپوں میں اضافہ ہو گا۔‘تاہم اس کشیدگی کے دوران ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ شاید یہ تنازع سرحدوں سے نکل کر دیگر علاقوں میں چلا جائے۔محمد فیصل کے مطابق ’اس جنگ میں براہِ راست فضائی حملے ہوں گے، روایتی جھڑپیں ہوں گی، اقتصادی نقصان بڑھایا جائے گا اور کابل میں طالبان حکومت کو اپوزیشن سے رابطوں کے ذریعے دباؤ کا شکار کرنے کی کوششیں ہوں گی۔‘تاہم افغان امور میں گہری دلچسپی رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار سمیع یوسفزئی اس بات سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ ’کیا پاکستان کھلے عام افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کی حمایت کرے گا؟ یہ پاکستان اور طالبان دونوں کے لیے کوئی پُرکشش پیشکش نہیں۔‘’پاکستان نے افغانستان میں ہمیشہ دوست اور حلیف تلاش کر کے اپنی بالادستی برقرار رکھی اور یہ پالیسی اب بھی جاری ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔‘Getty Imagesخطے میں تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور خراسان ڈائری سے منسلک افتخار فردوس کو لگتا ہے کہ ’کھلی جنگ کا مطلب یہی ہے کہ اگر پاکستان افغانستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنائے گا۔‘وہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں صرف پاکستان ہی کسی کھلی جنگ کی طرف اشارہ نہیں کر رہا بلکہ افغانستان میں طالبان کے ارادے بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔’جب افغان طالبان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تو وہ اسلام آباد کو نشانہ بنائیں گے تو یہ بھی جنگ کا اعلان ہی ہے۔‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا۔افغانستان کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران پاکستان کی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا تھا کہ صرف رواں برس پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دس ہزار آپریشن کیے ہیں، جن میں 900 دہشت گرد مارے گئے جبکہ اسی دوران شدت پسندوں کے حملوں میں 516 سکیورٹی اہلکار اور عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔پاکستان کی فوج کا یہ بھی کہنا تھا کہ خودکش حملوں میں ملوث 30 شدت پسندوں کا تعلق افغانستان سے تھا۔جہاں طالبان حکومت پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی تردید کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہیں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان شاید شدت پسندوں کو استعمال کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔عامر رانا کا مؤقف ہے کہ ’وہ (افغان طالبان) ٹی ٹی پی کے ذریعے دہشت گردی کو پاکستان کے اندر تک لے آئیں گے اور یہ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کے لیے بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ طالبان کا نظریہ شدت پسندی پر مبنی ہے۔‘Getty Imagesعامر رانا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور شدت پسند گروہ حافظ گل بہادر کا نیٹ ورک خیبر پختونخوا اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔دیگر مبصرین کا بھی یہ ماننا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی صورت میں شدت پسندی سرحدی اضلاع سے باہر نکل کر ملک کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل سکتی ہے۔افتخار فردوس کہتے ہیں کہ ’اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بہت زیادہ حملے ہو رہے ہیں اور اگر مذاکرات سے بات نہیں بنتی تو پھر سرحدی اضلاع سے نکل کر ٹی ٹی پی کے حملےپنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں تک پھیل سکتے ہیں۔‘ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے افغانستان پر ہر طرح کا دباؤ ڈال رہا ہے۔’سرحد بند ہے، تجارت نہیں ہو رہی اور یہ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک دہشتگردی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔‘کیا پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں بہتری ممکن ہے؟پاکستان اور افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کو فریقین کے تعلقات میں فوری بہتری آنے کی توقع نہیں۔سکیورٹی امور کے تجزیہ کار عامر رانا کا خیال ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ’امکان یہی ہے کہ نہ صرف دہشت گردی بلکہ شدت پسندی پر مبنی بیانیے اور نفرت انگیزی میں اضافہ ہوگا۔‘دوسری جانب افتخار فردوس سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول پر آ بھی جائیں تب بھی طالبان حکومت سے پاکستان کے تعلقات کبھی بھی ’برادرانہ‘ نہیں ہو سکتے۔افغانستان میں طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے حال ہی میں انڈیا کا دورہ بھی کیا تھا اور اس دورے کے حوالے سے پاکستان میں بھی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔Getty Imagesافتخار فردوس اس دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ افغانستان پر کنٹرولڈ قسم کا دباؤ ڈالنا ہوگا کیونکہ لامحدود دباؤ کی صورت میں افغان طالبان انڈیا کے ساتھ بھی مِل سکتے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے مزید نقصان دہ ہوگا۔‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہوئے تھے تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صورتحال مزید خراب ہونے کی صورت میں دیگر ممالک بھی ثالثی کی کوششیں کریں گے۔افتخار فردوس کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان تنازع بڑھا تو چین، امریکہ اور سعودی عرب بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔عامر رانا کا بھی یہ یہی خیال ہے کہ صورتحال بگڑنے کی صورت میں اس تنازع میں امریکہ جیسے ممالک کا کردار بڑھ سکتا ہے۔کیا پاکستان دو سرحدوں پر تناؤ کا متحمل ہو سکتا ہے؟جہاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسی برس پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع بھی شدت اختیار کر گیا تھا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا تھا۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی تو ہو گئی تھی لیکن تاحال دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آئے۔ایسے میں لوگوں کے دماغ میں یہ سوال اُٹھنا یقینی ہے کہ کیا پاکستان دو محاذوں پر کشیدگی کا متحمل ہو سکتا ہے؟Getty Imagesسڈنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے منسلک پی ایچ ڈی ریسرچر محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’عقلمندی پر مبنی حکمت عملی تو یہی ہے کہ دو، تین محاذوں کو گرم نہ رکھا جائے۔‘’وسائل محدود ہیں اور 2007 سے 2014 میں ٹی ٹی پی کے خلاف لڑائی کے دوران بھی پاکستان نے مشرقی محاذ کو خاموش ہی رکھا تھا۔‘وہ اس وقت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دوران ہم نے دیکھا تھا کہ انڈین کی سرحد سے فوجی اہلکاروں کو واپس بُلا کر افغان سرحد اور سابق قبائلی اضلاع میں تعینات کیا گیا تھا۔تاہم ان کے مطابق اب جب انڈیا کے ساتھ محاذ پہلے ہی گرم ہے اس وقت افغانستان کے ساتھ کشیدگی نے پاکستان کے لیے چیلنج کو بڑھا دیا۔’گریٹر بنگلہ دیش‘ کے مبینہ نقشے پر وضاحت: جنرل ساحر شمشاد کو عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی جانب سے دیا گیا تحفہ متنازع کیوں ہوا؟سرحدی کشیدگی کے بعد کریک ڈاؤن اور تجارتی بندش جیسے اقدامات کیا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟ ڈیورنڈ لائن: 132 سال قبل کھینچی جانے والی لکیر کو قیام پاکستان کے بعد افغانستان نے سرحد تسلیم کرنے سے انکار کیوں کیا؟پاکستان کی گل بہادر کے ٹھکانوں پر حملوں کی تصدیق: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بناافغانستان میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک: ’مرنے والے سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے‘ مزدور تنظیم کا دعویٰافغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

انڈین صدر کے ساتھ شیوانگی سنگھ کی نئی تصویر: انڈیا کو اپنی فائٹر پائلٹ کے بارے میں بار بار تردیدیں کیوں جاری کرنی پڑتی ہیں؟

’ابھرتے ٹیلنٹ کی مدد کریں‘: گلوکار فلک شبیر کی ’پاکستان آئیڈل‘ کو اپنے گانے استعمال کرنے کی اجازت

شہزادی مارگریٹ کی دگنی عمر کے شادی شدہ شخص سے محبت کی داستان، جس کا آغاز ’جیکٹ کے دھاگے‘ سے ہوا

جب کوئٹہ میں رنگ برنگے بادلوں کے سبب ’میزائل تجربے‘ کی افواہیں پھیلیں

’برقع پوش خاتون نے گلا کاٹنے کا اشارہ کیا‘: شام میں دولت اسلامیہ کے مبینہ جنگجوؤں کی سب سے بڑی جیل میں بی بی سی نے کیا دیکھا

استنبول مذاکرات ناکام، افغان طالبان ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں، وزیر اطلاعات

بابر اعظم کیا واپس ’ڈرائنگ بورڈ‘ پر جائیں گے؟

دہلی میں مصنوعی بارش کروانے کی ناکام کوشش پر تنقید: کلاؤڈ سیڈنگ کیا ہے اور اس کے کامیاب ہونے کا امکان کتنا ہوتا ہے؟

کیا ٹرمپ کا چین کو نظر انداز کر کے معدنیات کی عالمی صنعت پر قابض ہونے کا خواب پورا ہو پائے گا؟

مریم نواز نے سیل مساجد کا انتظام تنظیم المدارس اہلِ سنت کے سپرد کرنے کی ہدایت کردی

آزاد کشمیر میں وزیراعظم کے امیدوار کا نام پیپلز پارٹی نے فائنل کرلیا

کراچی: ڈی آئی جی ٹریفک کے زیر استعمال گاڑی کا بھی ای چالان

ٹاٹا گروپ: انڈیا کی بڑی کاروباری سلطنت اپنے سابق سربراہ کی موت کے بعد طاقت کی آپسی کشمکش کا شکار کیسے ہوئی؟

راولپنڈی: فیکٹری میں آتشزدگی، لاکھوں مالیت کا سامان جل کر خاکستر

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی