بالی وڈ کی ’آپا جی‘ اور لاہور کی شمشاد بیگم جو ہندی سنیما کی پہلی سپرسٹار گلوکارہ قرار پائیں


گزشتہ ہزاریے کے آخری برسوں میں ایورگرین ہندی گیتوں کی ری مکسنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو بہت سے نوجوان اپنے دادا، نانا کے عہد کے گیتوں سے آشنا ہوئے جن میں ’لے کے پہلا پہلا پیار‘، ’میرے پیا گئے رنگون‘، ’کجرا محبت والا‘، ’کبھی آر کبھی پار‘ یا ’سئیاں دل میں آنا رے‘ شامل ہیں جن کی ری مکسنگ تو کی ہی گئی بلکہ ان کی ویڈیوز بھی ریلیز ہوئیں اور نوجوانوں میں بے پناہ مقبول بھی۔کچھ حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ ری مکسنگ کے نام پر گیتوں کو بگاڑا جا رہا ہے جب کہ ان گیتوں کی ویڈیوز پر ’اخلاق باختہ‘ ہونے کا الزام بھی لگا مگر ان تمام اعتراضات سے قطع نظر ان گیتوں کی انفرادیت یہ تھی کہ ان کو جب ری مکس کیا گیا تو یوں محسوس ہوا کہ یہ گیت اسی دور کے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام گیت بالی وڈ کی ’آپا جی‘ یعنی شمشاد بیگم کے ہیں، وہ شمشاد بیگم جنہیں اکثر ہندی سنیما کی حقیقی بلبلِ موسیقی کا خطاب دیا جاتا ہے۔بلبلِ لاہور کا خطاب طمنچہ جان کو ملا جن کا ذکر پران نیول نے اپنی یادگار خودنوشت سوانح عمری ’لاہور جب جوان تھا‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔ وہ اپنی وفات سے چند برس قبل جب لاہور آئے تو انہوں نے طمنچہ جان سے ملاقات بھی کی تھی۔ بلبلِ پنجاب کا خطاب سریندر کور کو ملا جن کا خاندان لاہور کے علاقے آریہ نگر کی بھشن سٹریٹ میں رہتا تھا جو ان کے والد کے نام سے منسوب ہے اور اب بھی اسی نام سے جانی جاتی ہے۔اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ طمنچہ جان، سریندر کور اور پھر شمشاد بیگم ان تینوں کو فنِ موسیقی کی باریکیوں سے متعارف کروانے کا سہرا ماسٹر غلام حیدر کے سر بندھتا ہے۔ لتا منگیشکر اور ملکۂ ترنم نور جہاں کے فنی سفر کو آگے بڑھانے میں بھی ماسٹر جی کا اہم کردار رہا۔ماسٹر غلام حیدر کا ذکر ہوا تو بتاتے چلیں کہ اُن کی جائے پیدائش کے حوالے سے یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ نارووال میں پیدا ہوئے یا حیدر آباد (سندھ) میں مگر اُس عہد کی موسیقی پر اُن کے دوررَس اثرات سے مفر ممکن نہیں۔بات شمشاد بیگم کی ہو رہی تھی تو وہ سانحہ جلیانوالہ باغ کے اگلے روز یعنی 14 اپریل 1919 کو لاہور کے ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوئیں۔ بہت عرصہ تک یہ غلط فہمی رہی ہے کہ شمشاد بیگم امرتسر میں پیدا ہوئیں بلکہ معروف تاریخ دان ڈاکٹر اشتیاق احمد نے تو شمشاد بیگم کی جائے پیدائش امرتسر ہی لکھی ہے جس کی درستی گلوکارہ اور پھر اُن کی صاحبزادی بھی کر چکی ہیں کہ ان کی جائے پیدائش دراصل لاہور تھی، جو اُس وقت غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھا۔شمشاد بیگم کے والد میاں حسین بخش مکینک اور والدہ غلام فاطمہ گھریلو خاتون تھیں۔ شمشاد بیگم کے آٹھ بہن بھائی تھے۔ انہوں نے بھی بچپن میں اپنی ہم جولیوں کی طرح شادیوں، مذہبی تقاریب اور محفلوں میں گانا شروع کیا مگر موسیقی کی کوئی باضابطہ تربیت حاصل نہیں کی۔یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب موسیقی رؤسا کا شوق ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت ایک گراموفون کی قیمت 250 روپے تھی جبکہ ریکارڈ دو روپے میں ملتا تھا جو ایک بڑی رقم تھی جس کے باعث موسیقی سے لطف اندوز ہونا عیاشی کے زمرے میں آتا تھا۔والد اور والدہ دونوں پرانے خیالات کے مالک تھے تو شمشاد بیگم کے لیے اپنا راستہ بنانا آسان نہیں تھا۔ گلوکارہ کی صاحبزادی اوشا رترا نے خبر رساں ادارے ’آئی اے این ایس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اُن کی جائے پیدائش کی تصحیح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ لاہور میں پیدا ہوئیں لیکن ہر ویب سائٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ براہِ کرم یہ تصحیح کر لیجیے کہ وہ لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے والد مکینک تھے۔ ان کے سات یا آٹھ بہن بھائی تھے اور ان کا خاندان بہت قدامت پسند تھا۔‘شمشاد بیگم کے سب سے زیادہ گیت موسیقار سی رام چندر کے ساتھ ہیں۔ فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیاانہوں نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ ’گلوکاری کے ان (شمشاد بیگم) کے فن کو سب سے پہلے ان کی سکول کی پرنسپل نے پہچانا، لیکن اُس زمانے میں کسی لڑکی کا گانا گانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میری نانی بہت قدامت پسند تھیں۔‘ ان حالات میں شمشاد بیگم کے چچا امیرالدین ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے ہمیشہ اُن کے فن کی حوصلہ افزائی کی۔وہ شمشاد کو نہ صرف اچھا گانے پر انعام دیا کرتے بلکہ انہیں آڈیشنز پر بھی ساتھ لے کر جاتے۔ یہ امیرالدین ہی تھے جنہوں نے اپنے بھائی اور شمشاد کے والد کو قائل کیا کہ وہ اُن کو پیشہ ور گلوکارہ بننے دیں کیونکہ سُریلی آواز تو خدا کی عطا ہے۔’دی بیٹر انڈیا‘ نامی ویب سائٹ گلوکارہ کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہے کہ ’چچا مجھے آڈیشن کے لیے لے گئے جو کمپنی کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے لیا۔ آڈیشن کے دوران میں نے بہادر شاہ ظفر کی غزل ’میرا یار گر ملے مجھے جانِ دل فدا کروں‘ گائی اور کچھ مرثیے پڑھے۔ ماسٹر صاحب میری آواز سے بہت متاثر ہوئے اور اِسی دن معاہدے پر دستخط کرنے کو کہا۔ مجھے 12 گانے گانے کا معاہدہ پیش کیا گیا، ہر گانے کے 12 روپے 50 پیسے دیے جانے تھے، جو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔‘اس وقت شمشاد بیگم کی آواز کو نکھارنے میں ماسٹر غلام حیدر نے ان کی بھرپور مدد کی اور انہیں ’چومکھیا‘ قرار دیا، یعنی ایک ہمہ جہت فنکارہ جو ہر قسم کا گانا گا سکتی ہے۔شمشاد بیگم کی زندگی میں اسی زمانے میں نوجوان ہندو وکیل گنپت لال بٹو آئے جو عمر میں اُن سے بڑے تو تھے ہی بلکہ اُن کا دھرم بھی الگ تھا مگر محبت میں یہ چیزیں کہاں دیکھی جاتی ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب شمشاد کے والدین بھی ان کے لیے مناسب رشتے کی تلاش میں تھے۔یہ سال 1934 کا ذکر ہے جب گلوکارہ کے والدین کی کوششیں قریباً کامیابی سے ہمکنار ہونے ہی والی تھیں کہ اسی دوران گنپت لال بٹو اور شمشاد نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس شادی کو شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ فیصلہ نوجوان گلوکارہ کی ترقی پسند فکر کو بھی ظاہر کرتا تھا۔’دی بیٹر انڈیا‘ لکھتا ہے کہ ’شمشاد بیگم نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے کئی بھجن اور علاقائی گیت گائے۔ ایک روایت کے مطابق، ان کا پہلا پیشہ ورانہ گانا ایک ہندو بھجن تھا، اور ریکارڈنگ کمپنی نے ان کا نام بدل کر ’اوما دیوی‘ رکھ دیا۔ وہ تسلسل سے گائیکی کرنے لگیں تو اُن کا حقیقی نام بھی برقرار رکھا جانے لگا، وہ اس دوران ریڈیو کے لیے بھی گانے لگیں اور موسیقاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔‘گلوکارہ نے اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اور پشاور سٹیشن کے لیے گیت گائے۔ ازاں بعد پنجابی فلموں جیسے ’یملا جٹ‘ اور ’گوانڈی‘ میں گانے کے بعد ہندی فلموں کے لیے بھی پسِ پردہ گائیکی شروع کی۔ ان کی پہلی ہندی فلم ‘خزانچی‘ سال 1941 میں ریلیز ہوئی، جس کے  قریباً تمام گانے شمشاد بیگم نے ہی گائے۔ یہ اس سال کی سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی فلم قرار پائی جسے پنچولی سٹوڈیوز نے پروڈیوس کیا تھا جس کا لاہور میں فلمی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار رہا ہے۔فلم ‘خزانچی‘ کئی حوالوں سے یادگار رہی جیسا کہ موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے کلاسیکی راگوں اور پنجاب کی لوک دھنوں کے ملاپ سے ایسی مدھر موسیقی تخلیق کی جس نے آنے والے برسوں میں ہندی فلمی سنگیت کی روایت پر گہرا اثر ڈالا۔ اردو کی ممتاز فکشن نگار قرۃ العین حیدر بھی اس فلم سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکیں جن کا اس حوالے سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔’سنیما کے کلچر پر نیو تھیٹرز کلکتہ یعنی بنگال حاوی تھا۔ یہ ایک مدھم سریلی نہایت مہذب اور محتاط کلچر تھی، لاہور کی بے تکلف چاق چوبند پنجابی طرز زندگی نے اس کلچر کو برطرف کیا یعنی ‘آب آمد تیمم برخاست۔‘ اب مدھم سُروں میں بنگالی دھنوں والے آرکسٹرا کے بجائے ڈھولک کی تھاپ پر پنجابی لوک دھنوں کی بارش شروع ہوئی، ماسٹر غلام حیدر اس نئے اسکول کے قائد تھے، بنگالی جوتھیکا رائے کے بجائے امراؤ ضیا بیگم اور شمشاد بیگم کے پنجابی لہجے سے معمور گیت سارے ہندوستان کی فضاؤں میں گونجنے لگے۔‘بہت سے لوگ گلوکارہ کو اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ شمشاد بائی کے ساتھ خلط ملط کر دیتے تھے۔ فائل فوٹوامراؤ ضیا بیگم ماسٹر غلام حیدر کی بیوی تھیں۔ اس فلم کے لیے قریباً تمام گیت ہی شمشاد بیگم نے گائے تھے۔ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس دور میں اداکار گلوکاری بھی کیا کرتے تھے جیسا کہ ثریا یا نور جہاں وغیرہ۔ شمشاد بیگم نے فلموں میں اداکاری نہیں کی جس کی وجہ اُن کو اس کے لیے والدین کی جانب سے اجازت کا نہ ملنا تھی۔شمشاد بیگم کو بالی وڈ میں متعارف کروانے کا سہرا لیجنڈ فلم ساز محبوب خان کے سر بندھتا ہے۔ گلوکارہ کی صاحبزادی اوشا رترا نے اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’محبوب صاحب نے میرے نانا سے کہا، ’میں اسے بمبئی لے جاؤں گا، فلیٹ، گاڑی، سواری سب کچھ دوں گا، اور اگر چار سے چھ لوگ اس کے ساتھ آئیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ براہ کرم اسے بمبئی جانے دیں۔‘ میرے نانا راضی نہیں تھے مگر میری ماں بمبئی جانا چاہتی تھیں، اس لیے انہیں ماننا پڑا۔‘شمشاد بیگم نے فلم ’خزانچی‘ کے بعد کئی کامیاب فلموں کے لیے پلے بیک گلوکاری کی۔ موسیقار نوشاد بھی اُن کی آواز کے مداح تھے جنہوں نے انہیں اپنی متعدد فلموں میں سائن کیا جن میں ’انمول گھڑی‘ (1946)، ’شاہ جہاں‘ (1946)، ’درد‘ (1947)، ’میلہ‘ (1948)، اور ’دلاری‘ (1949) نمایاں ہیں۔ شمشاد بیگم نے بہت سی فلموں میں اداکارہ نرگس کو اپنی آواز مستعار دی۔شمشاد بیگم کی ہم عصروں میں ثریا، زہرہ بائی امبالے ولی، امیربائی کرناٹکی، راج کماری اور نور جہاں تو تھیں ہی بل کہ لتا منگیشکر نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز اسی دور میں کیا تھا مگر شمشاد بیگم اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں۔ انہوں نے اپنے عہد کے قریباً ہر موسیقار کے ساتھ کام کیا جن میں اکثر نو آموز تھے جن کے لیے وہ کم معاوضے پر بھی گا دیا کرتی تھیں کیوں کہ وہ اُن کو پورا معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔یہ المیہ ہی ہے کہ یہ موسیقار جب کامیاب ہوئے تو انہوں نے گلوکارہ کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا جن میں سی رام چندر اور او پی نیئر بھی شامل ہیں جن میں سے بعد میں کچھ نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے گلوکارہ کے ساتھ ناانصافی کی۔ او پی نیئر نے اگرچہ تاخیر سے ہی سہی مگر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ ’اُن کی کامیابی میں شمشاد بیگم کا بہت اہم کردار رہا ہے۔‘شمشاد بیگم نے بہت کم انٹرویوز دیے، اور کبھی اپنی تصویر لینے کی اجازت نہ دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگ ان کے چہرہ شناسا نہیں تھا، وہ حالانکہ ان کی آواز سنتے تھے اور ان کا نام جانتے تھے۔ 1970 کی دہائی تک کسی کو ان کی تصاویر تک رسائی نہیں تھی۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان کو اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ شمشاد بائی کے ساتھ خلط ملط کر دیتے تھے۔ ایک بار اس وجہ سے ان کو اپنی ہی موت کی خبر پڑھنے کو ملی جبکہ وفات اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ شمشاد بائی کی ہوئی تھی۔شمشاد بیگم نے کبھی اپنے گیتوں کے ری مکس کیے جانے پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔ فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیاشمشاد بیگم نے اپنے ایک یادگار انٹرویو میں یہ ذکر کیا تھا کہ وہ فلم ’شاہ جہاں‘ کے گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران کے ایل سہگل سے ملیں۔ سہگل کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہیں، حالاںکہ وہ کچھ برسوں سے گاتی آ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’جب میں نے گایا، تو سہگل صاحب نے کہا، ’کیا آواز ہے، آپ نے کیا خوب گایا ہے!‘ میں بہت خوش ہوئی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ آواز میری تھی۔ ازاں بعد جب کسی نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے پاس آ کر کہا، ’آپ واقعی بہت اچھا گاتی ہیں۔‘کہا جاتا ہے کہ گلوکارہ نے سب سے زیادہ موسیقار نوشاد یا پھر او پی نیئر کے لیے گیت گائے مگر اُن کے سب سے زیادہ گیت سی رام چندر کے ساتھ ہیں جب کہ انہوں نے ایس ڈی برمن، سلیل چوہدری، مدن موہن جیسے موسیقاروں کے لیے بھی گیت  گائے۔ واضح رہے کہ ایس ڈی برمن کو ہندی سنیما میں بڑی بریک سال 1946 میں ریلیز ہوئی فلم ’شکاری‘ سے ملی جس کے لیے شمشاد بیگم نے ہی گیت گائے تھے۔1940 کی دہائی کے آخر میں کشور کمار اور مدن موہن فلمستان سٹوڈیو میں ان کے گانوں کے لیے کورس بوائز کے طور پر گایا کرتے تھے۔ شمشاد بیگم نے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ جب مدن موہن موسیقار بنیں گے تو وہ ان کے لیے گانے گائیں گی اور کم معاوضہ قبول کریں گی۔ انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ کشور کمار ایک عظیم پلے بیک سنگر بنیں گے۔ ازاں بعد انہوں نے کشور کمار کے ساتھ کئی دوگانے گائے جن میں ’گوری کے نینوں میں نندیا بھری‘ اور ’میری نیندوں میں تم‘ شامل ہیں۔سال 1955 میں گلوکارہ کے شوہر روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تو وہ ایک سال کے لیے موسیقی سے دور رہیں۔ وہ اگرچہ فلموں میں واپس آئیں مگر انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ انہوں نے اس دور میں ’مغلِ اعظم‘، ’بلف ماسٹر‘، ’سی آئی ڈی‘ سمیت کئی یادگار فلموں کے لیے گیت گائے مگر 1980 کی دہائی میں وہ پلے بیک گائیکی سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گئیں۔شمشاد بیگم کے خلا کو منگیشکر بہنوں نے پُر کیا جن سے قبل ازیں فلم میکرز شمشاد بیگم کی طرزِ گائیکی کی نقل کرنے کا کہا کرتے تھے۔فلم فیئر میگزین نے گلوکارہ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اُن کا تفصیلی انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’خدا نے میرے لیے راستے کھولے۔ میں نے کبھی کسی موسیقار سے خود رابطہ نہیں کیا۔ میں نے کبھی یہ اصرار نہیں کیا کہ میں صرف ہیروئن کے لیے ہی گانے گاؤں گی۔ میری کسی سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘شمشاد بیگم نے کبھی اپنے گیتوں کے ری مکس کیے جانے پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ ’نئی نسل کو مزہ کرنے دو۔ دنیا کے ساتھ بدلنا چاہیے۔‘شمشاد بیگم نے پانچ زبانوں میں پانچ ہزار سے زیادہ گیت گائے مگر پھر اچانک اُن کا کیریئر ختم ہو گیا اور انہوں نے گائیکی سے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ شمشاد بیگم کے ذکر کے بغیر بالی وڈ میں پسِ پردہ گائیکی کی روایت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں جو 23 اپریل 2013 کو ممبئی میں چل بسیں مگر ہندی سنیما میں سنگیت کی عظیم روایت پر اُن کے اثرات ہمیشہ محسوس کیے جاتے رہیں گے جیسے کہ لیجنڈ کلاسیکی گلوکار پنڈت جیسراج نے کہا تھا کہ ’مشہور گلوکاراؤں نے کبھی نہ کبھی شمشاد بیگم اور نورجہاں کی نقل کی ہے۔‘  یا پھر جیسے کہ او پی نیئر نے ایک بار کہا تھا کہ ’شمشاد کی آواز ایسی ہے جیسے مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں، جو دل کو سکون دیتی ہیں۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید آرٹ اور انٹرٹینمنٹ

’متاثر نہیں کیا‘، شرمیلا ٹیگور پوتے ابراہیم کی پہلی فلم سے ناخوش

متنازع وقف بل بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج، وجے تھلاپتھی کا تہلکہ

اکشے کمار نے سلمان خان کے متعلق بڑی بات کہہ دی

ہانیہ عامر پی آر پر وقت ضائع کر رہی ہیں، نادیہ خان

سلمان خان کو دھمکی دینے والا شخص گرفتاری کے بعد رہا

بالی ووڈ اداکاراؤں کی جائیداد سے متعلق سنسنی خیز انکشاف

حرا مانی کا خود سے متعلق بڑا انکشاف

ایسے لوگوں کی عزت نہیں کرسکتا جو۔۔ رجب بٹ ایک بار پھر فہد مصطفیٰ پر کیوں بھڑک اٹھے؟

کیا آپ ماں کی گود میں مسکراتے اس پیارے سے بچے کو پہچانتے ہیں؟ کون جانتا تھا بڑا ہو کر اتنا مشہور اداکار بن جائے گا

نواز الدین صدیقی کی نئی فلم کا سنسنی خیز ٹریلر جاری

کامیڈی فلم ’کھچڑی 3‘ کی ریلیز ڈیٹ سامنے آگئی

’گھر میں گُھس کے ماریں گے‘، اداکار سلمان خان کو ایک اور دھمکی

’گھر میں گُھس کے ماریں گے‘، سلمان خان کو ایک اور دھمکی

بالی ووڈ سے متعلق رندیپ ہودا کے بیان نے تہلکہ مچا دیا

سلمان خان کے بارے میں نجومی کی سنسنی خیز پیشگوئی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی