
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس رُکن جیک برگمین کی سربراہی میں ایک امریکی وفد نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔رواں ماہ اپریل میں اب تک دو امریکی وفود اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔ پہلا دورہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور کے سینیئر اہلکار ایرک مائر کا تھا۔ اس دورے کے دوران ایرک مائر کی سربراہی میں آنے والے وفد نے گذشتہ دنوں پاکستان میں منعقد ہونے والی ’منرلز انویسٹمنٹ فورم‘کا دورہ کیا اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔اس کے بعد جیک برگمین کی سربراہی میں گذشتہ روز ’علاقائی سالمیت، دفاعی تعاون اور انسداد دہشتگردی‘ کے معاملے امریکی کانگریس کے تین ارکان پر مشتمل وفد نے پاکستانی عہدیداران سے ملاقاتیں کی ہیں۔امریکی وفد نے پاکستانی آرمی چیف سے کیا بات چیت کی؟پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اتوار کو کانگریس مین جیک برگمین کی سربراہی میں تین رکنی وفد نے آرمی چیف سے ملاقات میں ’باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔‘اس وفد میں امریکی کانگریس کے دو مزید ارکان، تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن، بھی شامل تھے۔اگرچہ اس امریکی وفد کی جانب سے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے تاہم آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے دوران پاکستان اور امریکہ نے ’علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون پر زور دیا۔‘پاکستانی فوج کے بیان کے مطابق فریقین نے ’باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور مشترکہ سٹریٹجک مفادات پر مبنی پائیدار روابط کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ دورے پر آئے ہوئے امریکی قانون سازوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے کلیدی کردار کو سراہا اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے پائیدار کردار کا اعتراف کیا۔‘آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ امریکی وفد نے ’پاکستان کی صلاحیت اور اس کے عوام کی تزویراتی عزم کی بھی تعریف کی۔ پاکستان کی خودمختاری کے احترام کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی کانگریس کے وفد نے وسیع البنیاد دوطرفہ تعاون بالخصوص سلامتی، تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں وسیع تر دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کے پختہ عزم کا اظہار کیا۔'آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل عاصم منیر نے امریکی وفد کے دورے کی تعریف کی اور اس خواہش کا اعادہ کیا کہ ’پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری کو مزید گہرا اور متنوع بنانا چاہتا ہے جو ایک دوسرے کے قومی مفادات کے لیے باہمی احترام اور باہمی مفاد پر مبنی ہو۔‘اس ملاقات کے دوران پاکستان اور امریکہ نے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیتی تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔‘خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ایرک میئر نے بھی اپنے دورے کے دوران پاکستان کے آرمی چیف کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھی۔اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے مطابق اس دورے کا مقصد ’پاکستان میں امریکی کاروبار کے مواقع بڑھانا، دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات کو گہرا کرنا اور انسداد دہشتگردی میں جاری تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔‘آرمی چیف سے ملنے والے امریکی وفد پر تنقید کیوں؟جنرل عاصم منیر سے ملاقات کرنے والے کانگریس کے تین ارکان میں سے دو جیک برگمین اور تھامس سوزی امریکی کانگریس کے ’پاکستان کاکس‘ کے ارکان بھی ہیں۔ امریکی کانگریس میں مشترکہ مفادات اور قانون سازی کے مقاصد کے لیے بعض گروہ تشکیل دیے جاتے ہیں جنھیں ’کاکس‘ کہا جاتا ہے۔جہاں پاکستان میں حکومتی حلقے امریکی وفود کی آمد کو ’مثبت‘ قرار دے رہے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر بعض صارفین اس پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔تحریک انصاف کی حامی صارف صائمہ بابری نے ایکس پر جیک برگمین اور تھامس سوزی کو ٹیگ کر کے لکھا کہ ’اگر آپ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کر رہے ہیں تو پلیز ان کی قیادت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جمہوریت کو دبائے کے عمل کو نظر انداز نہ کریں۔‘اس پر صحافی و تجزیہ کار مزمل سہروردی نے تحریک انصاف پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’تمام لابی ناکام ہو گئی۔۔۔ ڈالرز ضائع ہو گئے۔‘امریکی کانگریس کے ان ارکان پر پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس کی جانب سے کڑی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں ان ارکان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی سمیت کئی مطالبے کیے تھے۔جیسے اس ٹیم کی قیادت کرنے والے کانگریس رکن جیک برگمین نے 23 جنوری کو ایکس پر لکھا تھا کہ ’حقائق واضح ہیں، لفظوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا وقت نہیں۔ عمران خان کو رہا کرو۔‘صحافی رائن گریم نے برگمین کی عمران خان سے متعلق ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’انھوں نے اس شخص سے (عمران خان کی) آزادی کے مطالبہ کا ڈھونگ رچایا جس کے ساتھ وہ تصویر میں ہیں۔‘اکتوبر 2024 میں امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان نے عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قید کیے جانے کے خلاف صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا جس میں پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزیوں پر بات کی گئی تھی۔ اس خط میں یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ ’کیا امریکہ پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سمیت اِن فوجی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کے ساتھ روابط قائم کرتا ہے جن پر جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے؟‘اس خط پر امریکی کانگریس کے جن ارکان نے دستخط کیے تھے ان میں ڈیموکریٹ جماعت کی خارجی امور کی کمیٹی کے رکن جوناتھن جیکسن بھی شامل تھے جو اس تین رکنی وفد کا حصہ تھے جنھوں نے اتوار کے روز جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔ خیال رہے کہ جوناتھن جیکسن امریکہ میں شہری حقوق کے معروف کارکن اور سیاستدان جیسی جیکسن کے بیٹے ہیں۔کانگریس کے پاکستان کاکس کے شریک بانیوں تھامس سوزی اور جیک برگمین نے اکتوبر 2024 کے دوران اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھا تھا۔ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ ’ہمیں عمران خان، ان کی قید، ان کے حامیوں کے مظاہروں اور مبینہ ’قید تنہائی‘ سے متعلق کئی سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘نومبر 2023 کے دوران امریکی کانگریس میں ایک بِل متعارف کرایا گیا تھا جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جیک برگمین اس بِل کے کے سپانسر تھے جس کے متن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں فوج ’ملکی سیاست پر غیر مناسب اثر و رسوخ رکھتی ہے۔‘دریں اثنا بعض پی ٹی آئی حامیوں نے امریکی وفد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کریں۔صارف محمد صدیقی نے لکھا کہ ’مسٹر برگمین۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو غیر قانونی حراست سے آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟ آپ تو پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے ساتھ مسکرا رہے ہیں۔‘احمد حسن نامی صارف نے جیک برگمین کو انھی کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اصل صورتحال جاننے کے لیے آپ کو عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان سے ملنا ہو گا۔‘اس انٹرویو میں جیک برگمین نے صحافی معید پیرزادہ کو کہا تھا کہ ’یہ مثبت چیز ہو گی اگر ہم عمران خان سے مل سکیں۔ کیا یہ ممکن ہو گا؟ ہم حکومتِ پاکستان کے مہمان ہوں گے۔۔۔ ہم امریکی حکومت اور ٹرمپ کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ ہم کاکس کی نمائندگی کریں گے۔‘بعض پی ٹی آئی حامی اکاؤنٹس صارفین سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ برگمین، جیکسن اور سوزی کو بذریعہ ای میل اپنے تحفظات سے آگاہ کریں۔صحافی شاہین صہبائی نے سوال کیا کہ ’جن دوستوں نے تین امریکی کانگریس کے ممبرز کو پاکستان بھیجا ہے۔۔۔ ان سے سوال ہے کہ کیا یہ لوگ پاکستانی فوج سے ملاقات کرنے اور سرکاری بیانیہ سننے گئے ہیں؟‘صارف محمد صدیقی نے لکھا کہ ’مسٹر برگمین۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو غیر قانونی حراست سے آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟ آپ تو پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے ساتھ مسکرا رہے ہیں۔‘’عمران خان سے متعلق ٹرمپ کے تاثرات نہیں جانتا‘:پاکستان میں اپنے بیانات سے ہلچل مچانے والے امریکی جینٹری بیچ کون ہیں؟آرمی چیف نے عمران خان کے ’خطوط نہ پڑھ کر‘ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت کو کیا پیغام دیا؟احتجاج، مذاکرات اور جیل سے لکھے گئے خطوط: پاکستان میں عام انتخابات کے ایک سال بعد تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟