
امریکی اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے مہینے بلوچستان میں ٹرین کے اغوا کے لیے وہ اسلحہ استعمال کیا گیا جو امریکہ نے افغانستان میں چھوڑا تھا۔عرب نیوز کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ واشنگٹن بھی طالبان حکومت کے ذریعے ان ہتھیاروں کی واپسی چاہتا ہے۔اسلام آباد کی جانب سے اقوام متحدہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کی واپسی ممکن بنائے اور خبردار بھی کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروپ ان تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔بلوچ لبریشن آرمی نے پچھلے مہینے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ کرکے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن کے دوران 33 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جو 24 گھنٹے تک جاری رہا۔یہ بھی بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں نے 31 افراد کو ہلاک کیا جن میں فوجی اہلکار، ٹرین کا عملہ اور عام شہری شامل تھے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے مئی میں دی پوسٹ کو اس اسلحے تک رسائی دی تھی، جو مارے یا پکڑے گئے عسکریت پسندوں سے برآمد کیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد امریکی فوج اور پینٹاگون نے تصدیق کی کہ صحافیوں کو دکھائے گئے ہتھیاروں میں سے 63 وہ تھے جو امریکہ نے افغان فورسز کو دیے تھے۔رپورٹ کے مطابق 2021 میں جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو اس وقت سات ارب ڈالر کا فوجی سامان ملک میں موجود تھا (فوٹو: روئٹرز)فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’11 مارچ کو ٹرین پر حملے کے بعد پاکستانی حکام نے تین ایسی امریکی بندوقوں کے سیریل نمبر فراہم کیے ہوئے ہیں جو اس حملے میں استعمال ہوئیں۔ ان میں سے دو اس ذخیرے سے تعلق رکھتی تھیں جو افغان فورسز کو دی گئی تھیں۔‘پاکستانی حکام کی جانب سے دکھائے گئے 63 ہتھیاروں میں زیادہ ایم 16 رائفلز ہیں جبکہ ایم فور کاربین اور دوسری چیزیں بھی شامل ہیں۔پاکستانی حکام نے چند نائٹ ویژن ڈیوائسز بھی دکھائی تھیں جن کو امریکی افواج استعمال کرتی ہیں تاہم آزادانہ ذرائع سے اس امر کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ وہ امریکی حکومت کی ملکیت ہیں۔رپوٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ امریکہ کے افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار غیرمحفوظ سرحد پر ہتھیاروں کے غیرقانونی بازاروں سے ہوتی ہوئی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگیں۔اخبار نے 2023 میں افغانستان کی تعمیر نو کے لیے مقرر ہونے والے سپیشل انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا ہے، جس کا اندازہ تھا کہ جب طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت سات ارب ڈالر کا امریکی فوجی سامان افغانستان میں موجود تھا۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس اس اسلحے کا کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں ہے جو 2021 میں افغانستان طالبان کے ہاتھ لگا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ امریکی فوج جاتے ہوئے تقریباً ڈھائی لاکھ سے زائد بندوقیں چھوڑ گئی تھی جو ایک پوری کور کو مسلح کرنے کے لیے کافی تھی جبکہ اس سامان میں 18 ہزار کے قریب نائٹ ویژن گوگلز بھی شامل تھیں۔پاکستان کے ایک اسلحہ ڈیلر راز محمد نے دی پوسٹ کو بتایا کہ ’کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات کو سکریپ میں بیچ دیا تھا۔‘رپورٹ میں پاکستانی فوج کے میجر ظہیر حسن کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ ’باغیوں نے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات اور تھرمل کے سامان کو ڈرون کے ساتھ جوڑا ہے کہ تاکہ فوج پر زیادہ درستگی کے ساتھ حملے کر سکیں۔‘پاکستان کے دفتر خارجہ نے رواں ماہ کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں اس امر پر اتفاق ظاہر کیا تھا کہ امریکی فوج کے چھوڑے گئے معاملے کو حل ہونا چاہیے۔