ایران کے شہر مہرستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کا قتل: ’مرنے والوں کے ہاتھ، پاؤں بندھے ہوئے تھے، کمر میں گولیاں ماری گئیں‘


پاکستان میں حکام نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر 'مہرستان' میں نامعلوم مسلح افراد کی گولیوں کا نشانہ بننے والے آٹھ پاکستانی شہریوں کے ناموں اور شناخت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی میتیں ملک واپس لانے کے لیے کیے جانے والے انتظامات آخری مراحل میں ہیں۔ایک ایرانی خبر رساں ادارے اور ہلاک ہونے والوں کے پاکستان میں موجود ایک رشتہ دار نے دعویٰ کیا ہے کہ جب آٹھ پاکستانیوں کی لاشوں کو جائے وقوعہ سے برآمد کیا گیا تو اُن کے ہاتھ، پیر بندھے ہوئے تھے جبکہ ان افراد کو کمر پر گولیاں ماری گئی ہیں اور اُن کی لاشوں کی منھ دیوار کی طرف تھے۔تاہم اِن دعوؤں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔یہ تمام پاکستانی گاڑیوں کی مرمت کرنے والی ایک ہی ورکشاپ میں کام کرتے تھے اور ان کی رہائش بھی ایک ہی کمرے میں تھی۔ اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف کالعدم تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ایران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر کے مطابق مہرستان میں ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور سے ہے اور اُن کی شناخت محمد عامر، محمد دلشاد، محمد ناصر، ملک جمشید، محمد دانش، محمد نعیم، غلام جعفر اور محمد خالد کے ناموں سے کی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں باپ، بیٹے سمیت ایک ہی خاندان کے متعدد افراد بھی شامل ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ایران نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح کارروائی‘ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دہشت گردی پورے خطے میں ایک دیرینہ اور مشترکہ خطرہ ہے جس کے ذریعے غدار عناصر بین الاقوامی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پورے خطے میں سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتے ہیں۔‘’دلشاد بے روزگاری کی وجہ سے ایران گئے تھے‘محمد دلشاد اُن آٹھ پاکستانی شہریوں میں شامل ہیں جنھیں سنیچر کو ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کیا ہے۔ محمد دلشاد کے بڑے بھائی محمد ارشد نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ دلشاد نے سوگواران میں بیوہ اور چار بچے چھوڑے ہیں۔محمد ارشد کے مطابق ’بھائی دلشاد نے رمضان میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب ایران میں اپنی ورکشاپ ہمیشہ کے لیے ختم کر کے پاکستان منتقل ہو جائیں گے کیونکہ اُن کے مطابق اب وہاں پر امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے کمائی کم ہو گئی تھی۔ مگر سرحد بند ہونے کی وجہ سے انھیں وہاں پر ہی رُکنا پڑا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’دلشاد نو، دس سال پہلے بہاولپور ہی میں ڈینٹنگ کا کام کرتے تھے۔ کچھ سال پہلے تک کام اچھا تھا مگر پھر اچانک حالات تبدیل ہوئے اور کام مندی کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔ دلشاد سارا سارا دن بیکار رہتے اور پھر وہ مکمل بے روزگار ہو گئے۔‘محمد ارشد کا کہنا تھا کہ ’دلشاد کو کسی نے بتایا کہ ایران میں اچھا کام ہے اور وہاں پر ڈینٹنگ کا کام کرنے والوں کی ضرورت بھی ہے۔ جس کے بعد پہلے وہ اکیلے ایران گئے۔ وہاں پر کسی کے ساتھ کام کرتے رہے پھر بعد میں انھوں نے وہاں پر اپنی ورکشاپ بنا لی تھی۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’اس ورکشاپ کے لیے وہ بہاولپور سے کاریگر لے کر جاتے تھے۔ وہاں پر ان ہنرمندوں کو بھی اچھی تنخواہ ملتی تھی۔ کچھ عرصہ قبل وہ اپنے بیٹے محمد دانش، بھتیجے محمد ظہیر، بھانجے محمد نعیم کو بھی لے گئے تھے تاکہ یہ لوگ بھی برسر روزگار ہو جائیں۔‘محمد ارشد کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصے سے ایران میں بھی کام اچھا نہیں تھا۔ دلشاد بتاتے تھے کہ اب وہاں بھی امن و امان کی صورتحال خراب ہو چکی تھی۔ وہاں پر پنجاب کے رہنے والوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں جبکہ کچھ عرصہ قبل بھی ایسا ایک اور واقعہ پیش آ چکا تھا۔ جس کے بعد بھائی دلشاد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ورکشاپ کو بند کر کے واپس پاکستان آ جائیں گے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’بھائی کا پروگرام تو یہ تھا کہ وہ رمضان میں واپس آ جائیں گے مگر بارڈر بند ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور وہ بس انتظار میں رہے۔‘’ہلاک ہونے والوں کے ہاتھ، پاؤں باندھے گئے تھے‘محمد ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس واقعے سے پہلے میری بھابھی نے فون کیا تو دلشاد نے انھیں کہا کہ ابھی ہم کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانا کھا لیں تو آپ کو فون کرتے ہیں یا آپ فون کر لینا۔ جس کے بعد بھابھی اپنے کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جب کافی دیر بعد بھابھی نے دلشاد کو کال کی تو انھوں نے کال نہیں اٹھائی۔ پھر انھوں نے اپنے بیٹے دانش اور بھتیجے ظہیر کو بھی کال کی تو وہ بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘محمد ارشد کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے باعث ان کی ’بھابی گھبرا گئیں اور انھوں نے ہم سب کو اطلاع کی جس کے بعد ہم لوگ بھی کوشش کرتے رہے مگر رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں وہاں پر موجود پنجاب کے کچھ اور لوگوں نے اطلاع کی یہ کہ واقعہ ہو گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا ’ابتدائی طور پر ہمیں پتا چلا کہ جب یہ لوگ کھانا کھا چکے تھے تو اس کے بعد مسلح نقاب پوش ان کے رہائش کے کمرے میں داخل ہوئے اور انھیں قتل کر دیا۔‘’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟پہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟کیا ہارڈ سٹیٹ ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے؟کوئٹہ میں 13 ’نامعلوم لاشوں‘ کی تدفین: یہ لوگ کون تھے اور بی بی سی نے قبرستان میں کیا دیکھا؟محمد اصغر بہالپور کے علاقے خانقاہ شریف میں ہی ٹیلر ماسٹر ہیں۔ وہ ہلاک ہونے والے محمد نعیم اور محمد عامر کے کزن ہیں۔محمد اصغر کہتے ہیں کہ ’ہم تک جو اطلاعات پہنچی ہیں ان کے مطابق ان آٹھ کے آٹھ لوگوں کی لاشیں ان کی رہائش کے کمرے سے ملی ہیں۔ ان کے بازو پیچھے سے باندھے گئے تھے اور ان کو کمر پر گولیاں لگی ہیں۔ ان کی لاشوں کے منھ دیوار کی طرف تھے۔‘ایرانی خبر رساں ادارے ’حل وش‘ کی خبر کے مطابق گاؤں میں واقع اس ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کیا جاتا تھا اور یہ افراد اسی ورکشاپ میں سوتے تھے۔ مقامی ذرائع نے ’حل وش‘ کو بتایا کہ 'حملہ آور ورکشاپ میں داخل ہوئے، وہاں موجود افراد کے ہاتھ پیر باندھ دیے اور اُن پر گولیاں چلائیں۔‘تاہم اصغر کی جانب سے کیے جانے والے ان دعوؤں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔’نعیم نے اپنی شادی کے لیے واپس آنا تھا‘محمد اصغر بتاتے ہیں کہ ’نعیم کو اُستاد دلشاد ایک سال پہلے اپنے ساتھ ایران لے کر گئے تھے۔ نعیم بہاولپور ہی میں ڈینٹنگ کا کام کرتا تھا۔ نعیم کی منگنی ہو چکی تھی اور شادی ہونا تھی جبکہ بہاولپور میں انھیں کم آمدن ہوتی تھی۔ جس بنا پر جب ایک سال پہلے دلشاد استاد آئے تو نعیم نے ان سے درخواست کی کہ ان کو بھی ساتھ لے جائیں جس پر استاد دلشاد نعیم کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔‘محمد اصغر کا کہنا تھا کہ ’ایک سال کے دوران نعیم نے محنت مزدوری کر کے اپنی شادی کے اخراجات پورے کر لیے تھے۔ توقع تو یہتھی کہ وہ رمضان میں واپس آ جاتے اور پھر عید کے بعد شادی ہونا تھی مگر بارڈر بند ہونے کی وجہ سے واپس نہیں آ سکے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’واقعہ سے پہلے میری نعیم کے ساتھ بات ہوئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جیسے ہی بارڈر کھلا وہ واپس آ جائیں گے اور شادی کے بعد واپس نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں اب پنجابیوں کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ وہاں پر ہمیں دھمکیاں ملتی ہیں۔‘’نعیم نے بتایا تھا کہ جب وہ عید کی نماز کے لیے گئے تو وہاں ان کو دھمکیاں ملی تھیں۔‘محمد اصغر کا مزید کہنا تھا کہ نعیم کی عمر 25 سال تھی جبکہ عامر کی عمر صرف بیس سال تھی۔ یہ دونوں ایک ساتھ ہی ایران گئے تھے۔’اب انتظار ہے کہ میتیں کب آئیں گی‘محمد ارشد بتاتے ہیں کہ ’ظہیر کی بھی شادی ہونا تھی۔ اس کی شادی کی تاریخ عید کے بعد تھی مگر وہ نہ آ سکے۔ ظہیر اور نعیم کی شادی کی آگے پیچھے کی تاریخیں ہی طے تھیں۔ ہمارے علاقوں میں شادی روایتی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور ہر کسی کو ان کے آنے کا انتظار تھا۔ ’مگر اب اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ ان کی میتیں کب آئیں گی۔‘ جس وقت بی بی سی نے محمد اصغر سے بات کی تو اُن کے مطابق اس وقت تک اس واقعے کو پیش آئے ڈیڑھ دن گزر چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہمیں نہیں پتا کہ لاشیں کدھر ہیں اور کب پاکستان پہنچیں گی۔ ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف اطلاعات پہنچ رہی ہیں۔ ابھی تک اعلیٰ احکام اور حکومت نے کچھ نہیں بتایا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پورا علاقہ سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔‘محمد ارشد کہتے ہیں کہ ’ایران میں ہمارے وہاں پر رابطے بہت محدود ہیں۔ جن لوگوں سے رابطے ہیں وہ بھی بہت خوفزدہ ہیں۔ ان کے پاس بھی معلومات کم ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ لاشیں جلد از جلد ہمارے سپرد کی جائیں تاکہ ہم عزت و احترام کے ساتھ ان کی تدفین کر سکیں۔‘کالعدم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟Getty Imagesفائل فوٹوایران کے سیستان بلوچستان کے ضلع مہرستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری کا دعویٰ ایک غیر معروف تنظیم کالعدم بی این اے یعنی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے کیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوری 2022 میں کالعدم بلوچ ریپبلیکن آرمی (گلزار امام گروپ) اور کالعدم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے کالعدم بی این اے کی تشکیل کی گئی۔اس کے پہلے سربراہ کے طور پر بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے ’گلزار امام شنبے‘ کا نام سے سامنے آیا۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تشدد کی زیادہ تر کارروائیوں کی ذمہ داریاں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت دیگر مسلح تنظیموں کے اتحاد براس یعنی بلوچ راجی آجوئی سنگر کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔تاہم کالعدم بی این اے کی جانب سے مکران ڈویژن کے دو اضلاع پنجگور اور کیچ سے تشدد کے چند ایک واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہیں۔اپریل سنہ 2023 میں بی این اے کے پہلے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور اس حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ کہا گیا کہ انھیں بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل سنہ 2022 کے آخر میں گلزار امام کے بارے میں بی این اے کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ گلزام امام پاکستانی اداروں کی تحویل میں ہیں جبکہ اس حوالے سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں کہ گلزار امام کو ترکیہ سے حراست میں لیے جانے کے بعد پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔گلزار امام شنبے کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کے ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے سرفراز بنگلزئی کا نام اس تنظیم کے دوسرے سربراہ کے طور پر سامنے آیا لیکن انھوں نے گزشتہ سال ہتھیار ڈال دیے تھے جسے پاکستانی حکام کی جانب سے ان کی جانب سے قومی دھارے میں شامل ہونے کا نام دیا گیا۔مذکورہ تنظیم کی جانب سے طویل عرصے بعد ایران کے کسی علاقے میں اپنی نوعیت کے کسی بڑی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ ہے تاہم ابھی تک ایران اور پاکستان میں سرکاری سطح اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔کیا ہارڈ سٹیٹ ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے؟پہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟کوئٹہ میں 13 ’نامعلوم لاشوں‘ کی تدفین: یہ لوگ کون تھے اور بی بی سی نے قبرستان میں کیا دیکھا؟جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

بین الاقوامی ایجنسی ’فچ‘ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی

پٹرول کی قیمت آج کم ہوگی،وزیراعظم کا اعلان

ضلع سوات میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

دہشت گردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ  نہیں بگاڑ سکتیں: آرمی چیف

ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلئے اہم اقدام، غیرمحفوظ گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخ

اب ڈیل یا مذاکرات نہیں ہوں گے، عمران خان

دہشت گردوں کی 10 نسلیں بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، آرمی چیف

اوورسیز پاکستانیوں کے مقدمات کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام

جعفر ایکسپریس پر حملے کے لیے بی ایل اے نے ’امریکی ساختہ ہتھیاروں‘ تک رسائی کیسے حاصل کی؟

بند کمرہ اہم اجلاس، بسنت میلہ سے متعلق بڑے فیصلے

’میں نے یہاں 50 برس گزارے ہیں‘ ، افغانوں کی واپسی سست روی کا شکار کیوں؟

پاکستان کا تجارتی عدم توازن کم کرنے کے لیے امریکہ سے خام تیل درآمد کرنے پر غور

ازبکستان ایئرویز اسلام آباد اور تاشقند کے درمیان مئی سے براہ راست پروازیں چلائے گی

لائیو: جسٹس علی باقر نجفی کی سپریم کورٹ تقرری کا نوٹیفکیشن جاری

جعفر ایکسپریس حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا: رپورٹ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی