
Getty Imagesیکم مئی 1945 کو ہیمبرگ ریڈیو نے اعلان کیا کہ ایڈولف ہٹلر نے لڑتے ہوئے اپنی جان دے دی'ہیڈ کوارٹر سے اطلاع آئی ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے بالشوزم کے خلاف آخری سانس تک لڑتے ہوئے آج دوپہر جرمنی کے لیے اپنی جان دے دی۔‘یکم مئی 1945 کو رات 10:30 بجے کے قریب جرمنی میں ہیمبرگ ریڈیو نے یہ پیغام نشر کیا تھا جس میں لندن کے روزنامہ دی ٹائمز کے مطابق، ’اس شخص کی موت کی خبر دی گئی جو عملی طور پر پوری دنیا کی نظر میں مجسم برائی سمجھا جاتا تھا۔‘ جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ہیمبرگ ریڈیو کے اعلان کے محض چند منٹ بعد، بی بی سی سے خبر نشر ہوئی: ’ہم اپنا پروگرام روک کر آپ تک یہ خبر پہنچانا چاہتے ہیں کہ جرمن ریڈیو نے ابھی اعلان کیا ہے کہ ہٹلر کی موت ہو گئی ہے۔ میں اسے دہراؤں گا: جرمن ریڈیو نے ابھی اعلان کیا ہے کہ ہٹلر کی موت ہو گئی ہے۔‘بعد میں پتہ چلا کہ نازی بیانیہ درست نہیں تھا اور دوسری عالمی جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار شخص یکم مئی کو نہیں بلکہ ایک دن پہلے 30 اپریل کو مرا تھا۔ اور اس کی موت کسی بہادر فوجی رہنما کی طرح لڑائی میں نہیں بلکہ انھوں نے زیر زمین پناہ گاہ میں خود کو گولی ماری تھی۔ آٹھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی، ہٹلر کی موت ایک معمہ ہے جو ساٹھ لاکھ یورپی یہودیوں کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔بی بی سی منڈو نے تاریخی دستاویزات اور تین ماہرین کی مدد سے اس آمر کے آخری ایام کی تشکیل نو کی ہے جو ہزار سال تک قائم رہنے والی سلطنت بنانے کا خواہشمند تھا۔مستقل پسپائیGetty Imagesبرلن میں جس سرکاری رہائش گاہ کو تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس سے کئی میٹر نیچے وہ بنکر تھا جہاں ہٹلر نے اپنے آخری ایام گزارے۔1944 تک نازی جرمنی کی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ مغرب میں نارمنڈی (فرانس) پر اتحادیوں کا حملہ، جنوب میں روم (اٹلی) کی آزادی اور مشرق میں سوویت فوج کی پیش قدمی اس جانب اشارہ تھا کہ جرمنی کی شکست محض کچھ وقت کی بات ہے۔تاہم ہٹلر کسی صورت ہتھیار ڈالنے پر راضی نہ تھے۔جرمن مؤرخ ہیرالڈ سینڈنر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’21 نومبر 1944 کو، وہ وولفز لیر (موجودہ پولینڈ میں) سے نکلے اور بذریعہ ٹرین مغرب میں اڈلر ہورسٹ (بیلجیم اور لکسمبرگ کی سرحد کے قریب) میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر گئے جہاں سے انھوں نے آرڈینز کے حملے کی قیادت کی۔‘آپریشن کی ناکامی کے بعد ہٹلر 16 جنوری 1945 کو برلن واپس آگئے۔ سینڈنر اس کی تصدیق کرتے ہیں جنھوں نے اپنی کتاب دی آئیتینوری (The Itinerary) کے لیےنازی آمر کے دوروں کی مکمل تاریخ پر دو دہائیوں تک تحقیق کی ہے۔سینڈنر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد صرف تین مارچ کو اگلے محاذ کے دورے کے لیے ہٹلر دارالحکومت سے نکلے ورنہ مرتے دم تک انھوں نے سارا وقت برلن میں ہی گزارا۔تاہم برلن پر اتحادیوں کی جانب سے بمباری میں اضافے کے ساتھ ہٹلر نے چانسلری کے نیچے بنے بنکر میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ جرمن دارالحکومت میں واقع یہ وسیع اور شاندار رہائش گاہ انھوں نے ایک دہائی قبل تعمیر کروائی تھی۔سینڈنر نے مزید کہا، ’24 جنوری کے بعد وہ ہمیشہ اسی پناہ گاہ میں سویا کرتے تھے۔‘Getty Imagesجرمن مؤرخ ہیرالڈ سینڈنر کے مطابق ہٹلر آخری بار تین مارچ 1945 کو برلن سے باہر نکلے تھےبرطانوی مؤرخ تھامس ویبر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اپریل کے اوائل تک سوویت فوجیں شہر سے محض چند کلومیٹر مشرق تک پہنچ گئی تھیں اور وہاں سے توپ خانے کی مدد سے حملہ کر رہی تھی۔ اس حملے کے بعد نازی رہنما بمشکل ہی منظر عام پر آتے تھے۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایبرڈینکے پروفیسر اور محقق بتاتے ہیں کہ ’ہٹلر نے اپنی زندگی کا تقریباً پورا آخری ہفتہ بنکر میں گزارا، صرف 20 اپریل کو اپنی سالگرہ کے موقع پر چانسلری میں مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے آئے اور پھر 23 تاریخ کو باغ کی مختصر سیر کے لیے گئے جہاں ان کی آخری تصاویر لی گئیں۔‘مختلف دستاویزات اور تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہٹلر کے علاوہ ان کے قریبی رفقا بھی زیر زمین پناہ گاہ میں تھے۔ان کی ساتھی ایوا براؤن، پارٹی سیکرٹری مارٹن بورمن، پروپیگنڈہ کے وزیر جوزف گوئبلز اور ان کا خاندان، کچھ فوجی مشیران، ان کے سیکرٹریز اور محافظوں اس گروپ میں شامل تھے جو ہٹلر کے ساتھ اس بنکر میں موجود تھے۔Getty Imagesشاہدین کے مطابق ہٹلر کا بنکر زیادہ سجا ہوا یا فرنشڈ نہیں تھاسرد اور ہجوم سے بھری قبر جیسا بنکرہٹلر کی سرکاری رہائش گاہ چانسلری کے کئی میٹر نیچے موجود خفیہ بنکر جسے ’فیوہرر بنکر‘ کہا جاتا ہے ایک وسیع عمارت تھی جس میں 30 ہال اور کمرے تھے۔ چانسلری کے برعکس، یہ زیادہ سجا ہوا نہیں تھا اور اس میں بمشکل کوئی فرنیچر تھا۔چار میٹر موٹی دیواروں اور چھتوں نے اسے اتحادیوں کی بمباری کے خلاف محفوط بنا دیا تھا جبکہ جدید وینٹیلیشن اور بجلی پیدا کرنے کا نظام اسے رہنے کے قابل بناتا تھا۔تاہم، یہ جگہ زیادہ آرام دہ نہ تھی. برطانوی مؤرخ کیرولین شارپلز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اس بنکر کے بارے میں موجود اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک بند، سرد، اور نم جگہ تھی جہاں جنریٹروں کی وجہ سے بہت شور ہوتا تھا اور ہوا کا گزر بہتر نہ ہونے کی وجہ سے فضا میں بدبو بھی تھی۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف روہیمپٹن سے تعلق رکھنے والی پروفیسر شارپلز نے کا مزید کہنا تھا، ’جو لوگ وہاں موجود تھے انھوں نے بتایا کہ وہ کلاسٹروفوبک محسوس کرتے ہیں جیسے بہت زیادہ ہجوم ہو۔ اس کے علاوہ انھیں وقت کا بھی احساس نہیں ہوتا تھا کیونکہ مصنوعی لائٹیں ہر وقت جل رہی ہوتی تھیں۔‘اس کے علاوہ محاذ سے ملنے والی خبریں بھی اچھی نہیں تھیں۔سینڈنر نے مزید کہا، ’ماحول کافی اداس تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ جنگ ہار چکے ہیں۔‘تاہم، ہٹلر کے معمولات میں بمشکل کوئی تبدیلی آئی تھی۔سینڈنر کے مطابق، ہٹلر دوپہر تک سوتے، اس کے بعد دن میں دو بار اپنے جرنیلوں کے ساتھ بریفنگ میں حصہ لیتے، پھر وہ چائے پیتے اور اپنے سیکرٹریوں کو احکامات جاری کرتے۔Getty Imagesآخری وقت میں ہٹلر کو لگنے لگا تھا کہ قریبی ساتھیوں نے دھوکہ دیا ہےجوابی کارروائیوں اور سازشوں کے درمیاناپنی 56ویں سالگرہ کے اگلے دن، 21 اپریل کو ہٹلر نے اپنے تین جرنیلوں کو جرمن دارالحکومت کے گرد سوویت گھیراؤ کو توڑنے کے لیے جوابی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔تاہم، کسی میں انھیں یہ بتانے کی ہمت نہیں تھی کہ نقشے پر اںھوں ںے جو فوجی دستے دیکھے تھے وہ دراصل مٹھی بھر آدمی تھے جن کے پاس ٹینک یا توپ خانہ نہیں تھا۔ایک دن بعد جب ہٹلر کو یہ معلوم ہوا کہ ریڈ آرمی یعنی سوویت فوج کے سپاہی شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور انھوں نے جس جوابی حملے کا حکم دیا تھا وہ ناکام ہو گیا ہے تو وہ اپنے جرنیلوں پر برس پڑے اور پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ جنگ میں شکست ہو گئی ہے۔ہٹلر نے مبینہ طور پر کہا، ’میں جاری نہیں رکھ سکتا۔ میرا جانشین عہدہ سنبھالے گا۔‘ سینڈنر کے مطابق اس لمحے کی جرمن فلم ’ڈاؤن فال‘ میں بہترین عکس بندی کی گئی ہے۔اس کے باوجود، ہٹلر نے اپنے وزیر برائے اسلحہ سازی البرٹ سپیر کا الپس کی طرف فرار ہو جانے کا مشورہ نظر انداز کر دیا۔Getty Imagesہٹلر کا موم بنا ہوا مجسمہ جو ان کے آخری ایام کی عکاسی کرتا ہےہٹلر کے مبینہ استعفیٰ کی خبر نازی ایئر فورس کے سربراہ فیلڈ مارشل ہرمن گوئرنگ تک پہنچی جنھیں ہٹلر نے ماضی میں 1939 اور 1941 میں جاری کیے گئے الگ الگ فرمانوں میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔گوئرنگ اس وقت بویریا میں پناہ لے رہے تھے۔ انھوں نے ہٹلر کو ایک ٹیلیگرام بھیجا اور ان سے خود پر عائد اس ذمہ داری کو واپس لینے کی درخواست کی۔ تاہم ہٹلر نے گوئرنگ کے اس اقدام کو دھوکہ دہی کے طور پر دیکھا۔شارپلز کہتی ہیں ’ہٹلر غصے میں تھے اور انھوں نے گوئرنگ کو حکم دیا کہ وہ اپنے تمام عہدوں اور جائیدادوں سے مستعفی ہو جائیں ورنہ انھیں غداری کے جرم میں پھانسی دے دی جائے گی۔‘لیکن یہ واحد دھوکہ نہیں تھا۔ 28 اپریل کو ہٹلر کو اطلاع ملی کہ ایس ایس کے رہنما ہینرچ ہملر نے سویڈن کے سفارت کاروں سے بات کی ہے اور ان سے امریکیوں اور برطانویوں کے ساتھ مذاکرات میں سہولت کاری کی درخواست کی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈویژن کے سابق سربراہ گائے لڈل کی ایک رپورٹ کے مطابق ہٹلر نے کہا، ’سب نے مجھ سے جھوٹ بولا، سب نے مجھے دھوکہ دیا، کسی نے مجھے سچ نہیں بتایا۔ مسلح افواج نے مجھ سے جھوٹ بولا، اور اب ایس ایس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘Getty Imagesہوا باز ہانا رائش سوویت گھیراؤ توڑ کر ایک طیارہ چانسلری کے قریب لینڈ کرنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن ہٹلر نے فرار ہونے سے انکار کر دیا۔آخری موقعجیسے ہی روسی فوجیوں نے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی شروع کی، ہٹلر نے اپنے قریبی لوگوں کو بتایا کہ وہ کسی صورت شہر نہیں چھوڑیں گے اور اپنی جان لے لیں گے۔تقریباً آخر تک ان کے پاس فرار ہونے کے متعدد مواقع تھے۔ 26 اور 27 اپریل کے درمیان، نازی ہوا باز ہانا رائش چانسلری کے قریب طیارہ اتارنے میں کامیاب ہوگئیں۔سینڈنرکہتے ہیں، ’وہہوائی جہاز میں بھاگ سکتے تھے، یا اس سے پہلے بھی لیکن انھوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ریاست کے سربراہ کے طور پر، انھیں ہر ممکن حد تک دارالحکومت میں رہ کر لڑنا چاہیے۔ انھوں نے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔‘زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔ہٹلر کی وہ غلطیاں جنھوں نے دوسری عالمی جنگ کا رخ موڑ دیاجب ہٹلر نے فوجی جرنیلوں کی حمایت کی خاطر دیرینہ ساتھی سمیت سینکڑوں لوگوں کو مروا دیاسواستکا: خوش قسمتی کی قدیم علامت کو ہٹلر نے کیوں چنااپنے اتحادی اور اطالوی ڈکٹیٹر بینیٹو مسولینی اور ان کی ساتھی کلارا پیٹاسی کو قتل کر کے ان کی لاشیں میلان کے ایک چوک میں الٹا لٹکا دینے کی خبر نے نازی رہنما کے عزم کو تقویت بخشی۔ ان کی ذہنی اور جسمانی حالت مسلسل زوال کا شکار تھی۔شارپلز ہٹلر کے باڈی گارڈ کی گواہی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’ہم جانتے ہیں کہ جیسے جیسے فوجی حالات خراب ہوتے گئے، ہٹلر کا حوصلہ بھی ٹوٹتا گیا۔‘سابق ایجنٹ کے مطابق ہٹلر کے چہرے پر خوف اور الجھن نمایاں تھی، ایک دیوانے جیسی خالی نگاہوں سے دیکھتے اور ان کی آواز بھی بمشکل سنائی دیتی۔ماہرینہٹلر کی جسمانی اور ذہنی خرابی کی وجہ نہ صرف میدان جنگ میں ناکامی بلکہ پارکنسنز کے علاج کے لیے لی گئی دوائیوں کی کاک ٹیلز کو بھی قرار دیتے ہیں۔Getty Imagesمئی 1945 میں ہٹلر اور ایوا براؤن کی باقیات سوویت یونین کو ملیں لیکن انھوں نے اپنے مغربی اتحادیوں کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا۔ایک اور غیر متوقع اقدام میں 29 اپریل کو ہٹلر نے ایوا براؤن سے شادی کر لی۔ لیکن شادی کا جشن منانے کے بجائے انھوں نے بنکر میں موجود لوگوں کو الوداع کہنا شروع کر دیا اور پھر اپنے سیکرٹری کو اپنی سیاسی وصیت لکھوائی۔ویبر کے مطابق، آخر میں ہٹلر کا ذہن دو متضاد خیالات کے درمیان بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف انھیں لگ رہا تھا کہ وہ جنگ ہار چکے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ یقین کہ اب بھی جنگ کا ایک جادوئی حل موجود ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہٹلر کا خیال تھا کہ برطانوی اور امریکی فوجی شہری جنگ چھیڑنے کی ہمت نہیں کریں گے جس کی قیادت انتہائی جنونی نازی جنگجو کریں گے۔‘تاہم، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔لڈل کی تحقیق کے مطابق، ہٹلر نے مبینہ طور پر اعلان کیا کہ ’کیونکہ جرمن عوام بہادری سے نہیں لڑی اور اسی لیے وہ موت کے مستحق ہیں۔ جنگ میں اصل ہار میری نہیں بلکہ جرمن عوام کی ہوئی ہے۔‘Getty Imagesافواہوں کا آغازلیکن ہٹلر نے نہ صرف اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا بلکہ اس نے اپنی باقیات کو بھی تلف کرنے کا حکم دیا۔انھوں نے اپنی وصیت میں لکھا کہ ’میں اور میری بیوی نے شکست ماننے یا سر تسلیم خم کرنے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے موت کا انتخاب کیا ہے۔ ہماری لاشوں کو فوری طور پر جلا دیا جائے۔‘30 اپریل کو 3:30 بجے کے قریب نازی ڈکٹیٹر اور براؤن ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ براؤن نے سائینائیڈ کا کیپسول نگلا جبکہ ہٹلر نے خود کو سر میں گولی مار لی۔چند منٹ بعد، ہٹلر کے محافظ کمرے میں داخل ہوئے اور دونوں جسموں کو اٹھا کر باغ میں لے گئے اور انھیں ایک گڑھے میں پھینک دیا جو انھوں نے پہلے سے کھود کر رکھا تھا۔ پھر گارڈز نے ان کے جسموں پر ایندھن ڈالا اور اپنے لیڈز کی خواہش کے مطابق انھیں تلف کرنے کے لیے ماچس جلا کر پھینکی۔ویبر کا کہنا ہے کہ، ’ہٹلر اس خیال سے بہت پریشان تھے کہ اگر انھیں روسیوں نے زندہ پکڑ لیا یا ان کی لاش انھیں مل گئی تو وہ ماسکو میں اس کی نمائش کریں گے۔‘Getty Images’ہٹلر اس خیال سے بہت پریشان تھے کہ اگر انھیں روسیوں نے زندہ پکڑ لیا یا ان کی لاش انھیں مل گئی تو وہ ماسکو میں اس کی نمائش کریں گے‘ویبر کا خیال ہے کہ نازی رہنما کے اس فیصلے کی کئی دیگر وجوہات بھی تھیں۔وہ بتاتے ہیں 1920 کی دہائی کے اوائل سے ہی ہٹلر نے اپنے آپ کو ایک طاقتور مسیحا کے طور پیش کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ یہ ان کے مرنے کے بعد بھی قائم رہے۔ہٹلر جزوی طور پر اپنا مقصد حاصل کر نے میں کامیاب بھی رہے کیونکہ ان کی موت کے تاریخی شواہد کے باوجود، کئی دہائیوں سے یہ دعوے سامنے آتے رہے ہیں کہ وہ زندہ بچ کر جنوبی امریکہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔سوویت یونین نے ان افواہوں کو فروغ دیا۔سینڈنر مزید کہتے ہیں کہ ’(جوزف) سٹالن نے مغربی اتحادیوں کے ساتھ ہٹلر کی موت کے بارے میں شکوک کے بیج بو کر کھیلا، حالانکہ مئی 1945 میں روسیوں کو ان کی لاش مل چکی تھی۔‘ویبر کے مطابق ہٹلر کے بنکر سے زندہ بچ نکنے کے دعوے نازی رہنما کی شخصیت کے خلاف جاتے ہیں۔’ہٹلر کے نقطہ نظر سے، بنا اقتدار کے تنہائی میں ایک دن بھی جینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔‘ان کا مزید کہنا ہے، 'ہٹلر کو نہ صرف عوام بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی ستائش کی ضرورت تھی۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جو سماجی رابطوں اور پہچان کو ترستے تھے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایسا شخص ارجنٹینا کے دیہی علاقوں میں چھپ کر رہنا چاہے گا۔‘جب ہٹلر نے فوجی جرنیلوں کی حمایت کی خاطر دیرینہ ساتھی سمیت سینکڑوں لوگوں کو مروا دیا’جب میرے ابا نے ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کی‘دوسری عالمی جنگ: جب شکست کے خوف سے ہٹلر کے ساتھیوں نے خود کشی کر لیقدیم روایت ’بیسا‘: جب البانوی مسلمانوں نے یہودیوں کو ہٹلر سے بچایا’ہماری بہنوں کی قربانی نے قیدیوں کی زندگی بچائی‘: نازی فوجیوں کے ہاتھوں 11 راہباؤں کی ہلاکت کا معمہ نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاں