
ابھی کوئی دو ہفتے قبل بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے دلیپ کمار، لتا منگیشکر، بھیم سین جوشی، روی شنکر، لارنس اولیویئر، رابندرناتھ ٹیگور اور بلراج ساہنی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسے فنکار ہیں جن کی آپ درجہ بندی نہیں کر سکتے۔ یہ جو ہیں وہ وہی ہیں۔ یہ تہذیب و تمدن کے معمار ہیں۔‘وہ در اصل معروف اداکار اور ادیب بلراج ساہنی کو یاد کر رہے تھے۔ امیتابھ بچن نے مزید کہا کہ ’میرے خیال سے بلراج جی نے ہمارے سینما میں فطری اداکاری کے کلچر کو فروغ دیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اداکاری نہیں کی، وہ وہاں ہوتے تھے، کوئی ان کو موجودگی نہ بھی دیکھے تو وہ ان کو محسوس کرتا ہے۔‘ہم آج ’دھرتی کے لال‘ سے اپنے کریئر کی ابتدا کرنے والے معروف اداکار بلراج ساہنی کو یاد کر رہے ہیں جو یکم مئی 1913 کو آج سے کوئی 112 سال قبل راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ان کی یادگار فلموں میں بمل رائے کی معروف فلم ’دو بیگھا زمین‘ کے علاوہ ’چھوٹی بہن‘، ’کابلی والا‘، ’وقت‘، ’گرم ہوا‘ وغیرہ شامل ہیں لیکن انہوں نے ’بھابھی‘، ’بندیا، ’سیما‘، ’ان پڑھ‘، ’ہمراز‘، ’نیل کمل‘، ’دو راستے‘، ’گھر گھر کی کہانی‘، ’دھرتی‘، ’سنگھرش‘ اور ’ایک پھول دو مالی‘ جیسی تقریبا ایک سو فلموں میں کام کیا۔’اے مری زہر جبیں۔۔۔‘ گیت پر ان کی اداکاری آج بھی لوگوں کو گرماتی ہے اور وقت کے ان کے مکالمے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔یوم مزدور یعنی یکم مئی کو پیدا ہونے والے اس دھرتی کے لال کو ان کے اشتراکی نظریات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے جبکہ فلموں کے بعد انہوں نے انگریزی اور پنجابی ادب میں گرانقدر تصانیف چھوڑی ہیں۔ان کی ایک تصنیف ’میرا پاکستانی سفرنامہ‘ ہے جو 1962 میں ان کے آبائی وطن مغربی پنجاب میں ان کے دورے کے بعد وجود میں آئی۔ اس میں انہوں نے اس میں تقسیم ہند کی وجہ سے بے وطن ہونے والوں کے غم و الم کو بھرپور طریقے سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے لاہور، جھنگ، سرگودھا، بھیرہ اور راولپنڈی میں اپنے تجربات اور پرانے لوگوں سے ملاقاتوں کا حال بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔بمل رائے نے ایک بار بلراج ساہنی کے بارے میں کہا تھا کہ بلراج ساہنی ایک ایسے اداکار ہیں کہ انہیں دھوتی پہنا دی جائے تو وہ دیہاتی نظر آتے ہیں اور انہیں کوٹ ٹائی پہنا دی جائے تو بیرسٹر اور یورپی جنٹل مین لگتے ہیں۔ دو بیگھہ زمین کے دوران انہوں نے یہ بات کہی تھی۔بلراج ساہنی کے بھائی بھیشم ساہنی نے اپنے بھائی کے بارے میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جو کہ ان کی زندگی کا بھرپور انداز میں احاطہ کرتی ہے۔کچھ فلم شائقین یہ سمجھتے ہیں کہ بلراج ساہنی دلیپ کمار سے بہتر تھے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)ان کے بیٹے پرکشت ساہنی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے ہیں، جبکہ ان کی ایک بیٹی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں روسی زبان کی استاد تھیں۔راولپنڈی میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ انگلش ادب میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ واپس راولپنڈی چلے گئے اور اپنے خاندان کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔لیکن پھر 1930 کی دہائی کے اواخر میں وہ انگلش اور ہندی کے اُستاد کی حیثیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی وِشو بھارتی یونیورسٹی (مغربی بنگال) چلے گئے۔ انہوں نے جنگ آزادی میں بھی شرکت کی۔بلراج ساہنی کی اداکاری کا بہت سے فلمی نقاد ’شہنشاہ جذبات‘ اور لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ بہت ایسے شائقین بھی رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بلراج ساہنی دلیپ کمار سے بہتر تھے، اور یہ کہ ان کے سیاسی نظریات نے ان کی اداکاری کی مہارت کو گہنا دیا۔6 دسمبر 1936 کو بلراج ساہنی کی شادی دمینتی ساہنی سے ہوئی۔ اپنی شادی کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار سے کٹے کٹے سے رہنے لگے اور کچھ عرصے کے لیے مہاتما گاندھی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ پھر مہاتما گاندھی کے مشورے پر بلراج ساہنی لندن چلے گئے جہاں انہوں نے بی بی سی ہندوستانی سروس میں کام کیا۔ لیکن پھر جلد ہی ہندوستان واپس آئے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی اداکاری کے مشترکہ جذبے کو آگے بڑھانے کے لیے ممبئی چلے آئے۔لیکن ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کی اہلیہ دمینتی کی موت ہو گئی جس سے وہ ٹوٹ کر رہ گئے۔انہیں 1946 میں پولیس نے گرفتار کر لیا اور ان کے انقلابی نظریات کی وجہ سے جیل بھیج دیا گيا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)بلراج ساہنی کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو ان کی فکری اور اور سینما سے ان کی محبت کو بیان کرتا ہے۔ بلراج ساہنی انڈین پروگریسو تھیٹر ایسوسی ایشن کے ایک سرگرم رکن تھے کہ انہیں 1946 میں پولیس نے گرفتار کر لیا اور ان کے انقلابی نظریات کی وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گيا۔واقعہ یہ ہے کہ اپنے کرداروں کو زندہ کرنے کے لیے بلراج ساہنی نے درحقیقت اپنے ہر کردار کو زندہ کیا، انھوں نے فلم دو بیگھہ زمین کے لیے رکشہ چلایا جبکہ 1951 کی فلم ’ہلچل‘ میں دلیپ کمار کی درخواست پر کے آصف نے بلراج کو جیلر کا کردار دیا۔بلراج اپنے کردار کے لیے بہت پرجوش تھے اور آصف کے ساتھ آرتھر روڈ جیل چلے جاتے تھے۔ دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ وہ جیلر کے ساتھ کچھ دن گزاریں گے اور اپنے کردار کی تیاری کریں گے۔اسی دوران ایک دن بلراج ساہنی ایک جلوس میں شامل ہوئے جو پرتشدد ہو گیا اور ساہنی کو بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور وہ حقیقتاً جیل پہنچ گئے۔پھر ایک دن کے آصف ان سے ملنے جیل گئے اور ساہنی کو پہچاننے پر جیلر نے جیل میں رہتے ہوئے انہیں شوٹنگ کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ساہنی روزانہ صبح فلم کی شوٹنگ کے لیے جاتے اور شام کو واپس جیل چلے جاتے۔ انہوں نے تقریباً تین ماہ جیل میں رہ کر فلم ’ہلچل‘ کی شوٹنگ کی۔فلم ’سنگھرش‘ میں وہ دلیپ کمار کے مد مقابل نظر آتے ہیں۔ امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے جو بھی کردار ادا کیا ہے وہ ان کی شاندار ادائيگی کی وجہ سے یادگار ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ایک فلم کی بات کریں گے تو وہ گرم ہوا ہے۔ یہ اداکاری ہماری سینما میں قدم آدم حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایسے لمحات ہیں جس میں ہماری پرفیکشن کی خواہش بار آور ہوتی نظر آتی ہے۔‘بلراج ساہنی نے پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجینتی مالا اور نرگس جیسی بڑی اداکارہ کے ساتھ کام کیا (فوٹو: اپر سٹال)امیتابھ بچن نے بتایا کہ ’انہوں نے مسلم خاندان کے سربراہ کا کردار ادا کرنے کے لیے مہینوں تیار کی۔ چونکہ وہ مسلمان نہیں تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ اس کو پردے پر اتارنے کے لیے انہیں مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اسی قسم کی محنت انہوں نے دو بیگھہ زمین میں رکشہ کھینچنے والے کا کردار ادا کرنے کے لیے کی تھی۔‘امیتابھ نے مزید کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ اگر بلراج ساہنی کولکتے کی سڑکوں پر رکشہ کھینچتے تو کوئی انہیں پہچان بھی نہیں سکتا تھا اس طرح کی ان کی اداکاری تھی۔ ہم لوگوں کو اس قدر محنت کا موقع نہیں ملا اور اگر ملتا تو بھی ہم اس درجے تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘بلراج ساہنی نے پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجینتی مالا اور نرگس جیسی بڑی اداکارہ کے ساتھ کام کیا۔ ان کے بیٹے پریکشت ساہنی نے ان کی سوانح ’دی نان کنفرمسٹ‘ لکھی ہے۔بلراج ساہنی کو 1969 میں انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم شری ملا۔ انہیں ’میرا پاکستانی سفر‘ اور ’میرا روسی سفرنامہ‘ کے لیے 1969 میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی فلم دو بیگھہ زمین کو 1953 میں کانز فلم فیسٹیول میں بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔پہلے وہ اپنی اہلیہ کی موت سے ٹوٹ سے گئے تھے اور پھر ان کی بیٹی شبنم کی جوانمرگی نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ 13 اپریل 1973 کو 59 سال کی عمر میں ان کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی موت پر نہ کوئی پنڈت آئے اور نہ کوئی شلوک پڑھا جائے۔ وہ اپنے مارکسی نظریات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔