
پاکستان کی سپریم کورٹ کے 27 جون 2025 کے فیصلے نے پنجاب اسمبلی میں بھی سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔اس فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں ایک اور واقعہ پیش آیا جس نے صورت حال مزید بدل دی۔ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کی تقریر کے دوران مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت اگلے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دی گئی، جس سے اپوزیشن کی سیاسی طاقت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب اپوزیشن پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے درکار 93 اراکین کی ریکوزیشن بھی جمع نہیں کرا سکتی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کے اثراتسپریم کورٹ کے 10 رکنی آئینی بینچ نے جولائی 2024 کے اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں واپس لے لیں۔پنجاب اسمبلی میں 27 مخصوص نشستیں مسلم لیگ ن کو دی گئی ہیں، جس سے ان کی اکثریت مضبوط ہو گئی۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت میں اتحادی حکومت قومی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ گئی ہے۔پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو ’آئین اور جمہوریت کا قتل‘ قرار دیا اور احتجاج کا اعلان کیا۔ پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ عوامی مینڈیٹ اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف سازش ہے۔‘تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی اپنی قانونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے، کیونکہ پارٹی نے مخصوص نشستوں کے انتخاب کے قواعد و ضوابط کی مکمل پیروی نہیں کی۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی معطلیوزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی نے احتجاج کیا جس کے بعد 26 ارکان کو مبینہ طور پر نازیبا زبان استعمال کرنے پر سنیچر کو سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دیا۔ اس سے اپوزیشن ارکان کی تعداد 105 سے کم ہو کر 79 رہ گئی ہے۔ اس کے باعث اپوزیشن اب اجلاس بلانے کے لیے ضروری 93 ارکان کی ریکوزیشن جمع نہیں کرا سکتی۔لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پیر کو اسمبلی اجلاس سے پہلے اپوزیشن کے چار اہم اراکین کو قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا۔ ان میں صائمہ کنول، محمد مرتضیٰ اقبال، محمد انصر اقبال اور احسن علی شامل ہیں۔اس کے علاوہ سپیکر نے 16 جون کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر 10 ارکان پر جرمانہ بھی عائد کیا۔دوسری طرف اپوزیشن رہنما ملک احمد بھچر نے معطل اراکین کے ہمراہ اسمبلی گیٹ پر احتجاج کیا، لیکن پولیس کی موجودگی کی وجہ سے احتجاج منتشر ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ملک احمد بھچر نے کہا کہ ’اسمبلی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، اور اب طاقت اور دھونس کا استعمال ایوان تک پہنچ گیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)اپوزیشن لیڈر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسمبلی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، اور اب طاقت اور دھونس کا استعمال ایوان تک پہنچ گیا ہے۔ اپوزیشن اگر ایوان کے اندر احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کروا سکتی ہے تو پھر ہمارے پاس اور کیا آپشن بچتا ہے؟ ہم سپیکر کے اس عمل کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔‘پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملیسینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’پی ٹی آئی کی سخت گیر سیاسی حکمت عملی اسے تنہائی کی طرف لے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی ہمیشہ ہر محاذ پر لڑتی ہے، چاہے اسمبلی ہو یا سڑکیں، لیکن اس کی یہ حکمت عملی اسے پارلیمانی عمل سے باہر کر رہی ہے۔ سنہ 2022 میں قومی اسمبلی سے استعفوں نے پارٹی کو قانون سازی سے دور کر دیا، اور اب پنجاب اسمبلی میں احتجاج نے اس کی آواز کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ میرے خیال میں انہیں اب سوچنے کی شدید ضرورت ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی سے عوام کی توجہ تو ملتی ہے، لیکن پارلیمانی اثر پذیری ختم ہو جاتی ہے۔ اور اب جس طرح کے حالات ہیں ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔‘دوسری جانب سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاست عوامی جذبات پر مبنی ہے، جو اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔وزیراعلٰی مریم نواز کی تقریر کے دوران مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت اگلے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دی گئی۔ (فوٹو: این این آئی)انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ اور معطلیاں دونوں ایسے واقعات ہیں جن کے باعث ایوانوں کے اندر تحریک انصاف کمزور ہوئی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ احتجاج کے بجائے قانونی اور پارلیمانی جنگ پر مرکوز کرے۔‘مجیب الرحمن شامی نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کی ماضی میں بھی ایسی حکمت عملی رہی ہے جیسے استعفے دے کر اسمبلیوں سے باہر آ گئے تھے، لیکن بہت بعد میں خان صاحب یہ کہتے پائے گئے کہ وہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ آج بھی صورت حال ویسی ہی لگ رہی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سزا بھی تھوڑی زیادہ سخت ہے۔ حکومت اور سپیکر کو چاہیے کہ وہ زیادہ برداشت کا مظاہرہ کریں، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔‘استعفوں سے معطلی تک: پی ٹی آئی کی سیاسی تاریخپی ٹی آئی کی سیاسی تاریخ اس کی جارحانہ حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ سنہ 2022 میں قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے بعد پارٹی قانون سازی کے عمل سے باہر ہو گئی، جس سے مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ میں برتری حاصل ہوئی۔ اب پنجاب اسمبلی میں احتجاج اور نازیبا زبان کے استعمال کی وجہ سے 26 ارکان کی معطلی نے اپوزیشن کی سیاسی طاقت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔سہیل وڑائچ کے مطابق ’پی ٹی آئی ہمیشہ ہر محاذ پر لڑتی ہے، چاہے اسمبلی ہو یا سڑکیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)ماہر قانون ڈاکٹر عثمان علی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی پارلیمانی حکمت عملی جذباتی ہے، نہ کہ حکیمانہ۔ وہ اپنے ووٹ بینک کو متحرک کر لیتی ہے، لیکن پارلیمانی قوت کو نظر انداز کرتی ہے، جو طویل مدتی نقصان کا باعث بنتا ہے۔‘’انہیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اب نئے رولز آف گیمز کیا ہیں۔ انہیں اپنی توجہ اپنی سیاست پر مرکوز کرنی چاہیے۔ اور جہاں تک 15 اجلاسوں کی معطلی کی بات ہے میرا خیال ہے کہ یہ تھوڑا زیادہ ہے۔‘پنجاب اسمبلی کی نئی حقیقتسپریم کورٹ کے فیصلے اور اپوزیشن کی معطلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو قانون سازی کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ 26 اراکین کی معطلی اور قائمہ کمیٹیوں سے اپوزیشن اراکین کی برطرفی نے ان کی قانون سازی پر اثراندازی کو محدود کر دیا ہے۔