
Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ نے اس امریکی اقدام کی تعریف کی ہےامریکی محکمہ خارجہ نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے کالعدم عسکریت پسند گروہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔اس ضمن میں محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ، لشکرِ طیبہ کا فرنٹ اور نمائندہ گروہ ہے جس نے 22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اس حملے میں 26 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پہلگام حملہ انڈیا میں 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد شہریوں پر کیا گیا سب سے مہلک حملہ تھا، ممبئی حملے لشکرِ طیبہ نے کیے تھے۔ دا ریزسٹنس فرنٹ نے انڈین سکیورٹی فورسز پر کئی دیگر حملوں کی بھی ذمہ داری بھی قبول کی ہے، جس میں تازہ ترین حملہ 2024 میں کیا گیا ہے۔۔۔‘انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکہ کے اس اقدام پر اُن کی تحسین کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکہ اور انڈیا کے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کا اظہار ہے۔ ’ایکس‘ پر اپنے پیغام نے انڈین وزیر خارجہ نے مزید لکھا کہ ’زیرو ٹالرینس فار ٹیررازم۔‘امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’محکمہ خارجہ کے یہ اقدامات ٹرمپ انتظامیہ کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ، دہشت گردی کا مقابلہ، اور پہلگام حملے کے متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہے۔‘یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ابتدائی طور پر ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک بیان میں قبول کی تھی۔ تاہم 25 اپریل 2025 کو اس گروپ نے ٹیلی گرام پر جاری کردہ اپنے بیان میں پہلگام حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور مئی 2025 میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر فضائی حملے کیے تھے اور بعدازاں امریکی ثالثی کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔Getty Imagesپہلگام حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھےپہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے پر شکوک و شبہاتپہلگام حملے کے فوراً بعد انڈین میڈیا میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کے حوالے سے جو نام بار بار لیا گیا تھا وہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا تھا۔ان دعووں کی بنیاد اِس تنظیم کے نام سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک بیان تھا۔بی بی سی مانیٹرنگ نے ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تھا تو پتا چلا کہ اِس بیان میں نہ تو دا ریزسٹنس فرنٹ کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کالعدم گروپ کا لوگو موجود تھا۔ جبکہ اس گروپ نے ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات میں اپنا نام اور لوگو کا استعمال کیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داری قبول کرنے کی غرض سے جو بیان سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا تھا وہ ماضی میں اس گروپ کے جاری کردہ ایسے بیانات سے بالکل مختلف بھی ہے جن میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔اگرچہ انڈین میڈیا نے بڑے پیمانے پر ’ٹی آر ایف‘ کا نام لیا لیکن بیان میں اس نام کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کے بجائے اپنی شناخت صرف 'کشمیر ریزسٹنس' کے طور پر کروائی گئی تھی۔خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس گروپ نے سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کا نام استعمال کیا تاہم، اس گروپ نے ماضی میں اپنے پروپیگنڈے میں ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام استعمال کیا اور ’کشمیر ریزسنٹس‘ کی اصطلاح گذشتہ بیانات میں اس گروپ کی جانب سے استعمال ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔بی بی سی مانیٹرگ کے مطابق نامناسب برانڈنگ اور محدود مواد کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر جہادی گروپوں، جیسے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے برعکس ٹی آر ایف کا میڈیا آپریشن زیادہ مربوط نہیں اور یہ گروپ ٹیلی گرام کے ذریعے 'ریزٹسنس میڈیا' کے نام سے اپنا پروپیگنڈا کرتا ہے۔’ریزسٹنس فرنٹ‘ کیا ہے؟ٹی آر ایف، جسے امریکی وزارت خارجہ نے کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم یا پراکسی قرار دیا ہے، ماضی میں عام شہریوں، خاص طور پر دوسری ریاستوں سے آنے والے تارکین وطن کارکنوں اور کشمیر میں اقلیتی ہندو برادری پر حملوں کا دعویٰ کرتی رہی ہے، تاہم متعدد مواقع پر اس گروپ نے بڑے پیمانے پر اس سے منسوب ہونے والے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید بھی کی۔بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ جموں کشمیر میں انڈین حکمرانی کے خلاف لڑنے والا ایک عسکریت پسند گروپ ہے جو سنہ 2020 کے ابتدائی مہینوں میں اُبھر کر سامنے آیا تھا۔ یہ گروپ مبینہ طور پر اگست 2019 میں انڈین حکومت کی جانب سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی قانونی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔انڈین میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ٹی آر ایف کو پاکستان کی سپورٹ دستیاب ہے، تاہم پاکستان اس قسم کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کرتا ہے۔ ٹی آر ایف ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات میں متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ وہ صرف انڈین ’قابض‘ فورسز کو نشانہ بناتا ہے اور کشمیر میں ان انڈین آباد کاروں پر حملوں کی دھمکی بھی دیتا ہے جو وہاں مستقل بنیادوں پر آباد ہو چکےہیں۔بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اس گروپ کی جانب سے 12 اکتوبر 2019 کو پہلی مرتبہ کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ انھوں نے سرینگر ہری سنگھ ہائی سٹریٹ میں ہونے والے ایک گرینڈ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔18 اپریل 2020 کو انڈین ریزرو پولیس فورس کے تین اہلکار بارہ مولا ضلع میں ہوئے ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی اس گروپ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔گذشتہ سات سال کے دوران اس گروپ نے کشمیر میں سکیورٹی فورسز، پولیس اہلکاروں اور آبادکاروں پر ہوئے بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اس کالعدم گروپ کے سربراہ کیا لیڈر کون ہیں، اس حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکآپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟