
پاکستان میں آٹو انڈسٹری ایک بار پھر ایک پیچیدہ اور نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یہ شعبہ جس سے لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہے، اب پالیسیوں کے عدم تسلسل، کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے دباؤ، اور برآمدی مواقع کے محدود استعمال کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔مقامی آٹو پارٹس بنانے والے ادارے صنعتی پالیسی میں تسلسل اور تھائی لینڈ و ویت نام جیسے کامیاب ماڈلز کی طرز پر اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی آٹو مارکیٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے حامیوں کا مؤقف بھی زور پکڑ رہا ہے، جو اسے صارفین کے حق میں ایک اہم اصلاح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔مقامی انڈسٹری کی بقا کی جنگآٹو پارٹس کے کاروبار سے وابستہ عامر اللہ والا کے مطابق پاکستان کی آٹو انڈسٹری مکمل تباہ نہیں ہوئی، لیکن یہ واضح طور پر دباؤ اور زوال کا شکار ہے۔انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی تعداد 2007 سے بھی کم ہے۔ ہم اس وقت صرف ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں سالانہ اسمبل کر رہے ہیں، جب کہ انڈونیشیا جیسا ملک 13 لاکھ یونٹس تک پہنچ چکا ہے۔‘یاد رہے کہ پاکستان دنیا کے ان 40 ممالک میں شامل ہے جہاں گاڑیاں مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان عالمی معیار کا صنعتی انفراسٹرکچر ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کی گاڑیاں کم قیمت میں تیار کرنے سے قاصر ہے۔عامر اللہ والا کا کہنا ہے کہ ’گاڑیوں کے تقریباً 60 سے 65 فیصد پرزے مقامی سطح پر تیار کیے جا رہے ہیں، اور یہ شعبہ تقریباً پانچ لاکھ افراد کو براہِ راست روزگار فراہم کرتا ہے اور تقریباً 25 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کا روزگار اس صنعت سے جڑے دیگر شعبوں سے وابستہ ہے۔‘انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری اور واضح پالیسی اقدامات کرے تاکہ یہ صنعت اپنی بقا کی جنگ جیت سکے۔پالیسی میں عدم تسلسل اور برآمدات میں ناکامیپاکستان آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینیئر نائب چیئرمین شہریار قادری نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس مسئلے کو زیادہ گہرائی سے بیان کیا۔ان کے مطابق پالیسیوں میں بار بار تبدیلی، خام مال پر انحصار، مہنگی یوٹیلٹیز، کم مقامی پیداوار، اور برآمدات کے حوالے سے مراعات کی کمی ایسے عوامل ہیں جو مقامی انڈسٹری کی ترقی کو روکے ہوئے ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ’پاکستان نے 2007–12 کے انڈسٹریل ڈویلپمنٹ پلان میں پانچ لاکھ گاڑیوں کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا تھا، لیکن بعدازاں پالیسی میں تبدیلیاں کر کے ڈیوٹی سٹرکچر میں ردو بدل کیا گیا اور طے شدہ اقدامات جیسے کہ ٹیکنالوجی فنڈ اور کلسٹر ڈیولپمنٹ معطل کر دی گئی۔‘عامر اللہ والا کا کہنا ہے کہ ’گاڑیوں کے تقریباً 60 سے 65 فیصد پرزے مقامی سطح پر تیار کیے جا رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)شہریار قادری کے مطابق 2012–16 کے عرصے میں کوئی واضح پالیسی فریم ورک نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری منجمد رہی، جبکہ 2016–21 کی آٹو پالیسی نے نئی کمپنیوں کو پرکشش مراعات دے کر مقامی وینڈرز کو نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ ’پہلے سے مقامی سطح پر تیار ہونے والے پرزہ جات پر بھی ڈیوٹی میں 50 فیصد رعایت دی گئی، جس سے وہ کمپنیاں متاثر ہوئیں جنہوں نے برسوں کی محنت سے لوکلائزیشن میں سرمایہ کاری کی تھی۔‘ان کے مطابق موجودہ پالیسی اے آئی ڈی ای پی 2021-26 بھی اگرچہ برآمدات اور مقامی پرزہ جات کی ترقی کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس پر جزوی عمل درآمد اور مالیاتی تبدیلیوں نے انڈسٹری کو غیر یقینی کی فضا میں مبتلا کر رکھا ہے۔استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد: خطرہ یا موقع؟مقامی صنعت کے ماہرین جیسا کہ شہریار قادری اسے واضح خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان میں اس وقت 40 ہزار سے زائد استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی جا رہی ہیں اور یوں وہ مقامی مارکیٹ کے تقریباً 25 فیصد حصے پر قابض ہیں۔‘وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’یہ گاڑیاں اکثر کالے دھن کے ذریعے لائی جاتی ہیں، ادائیگی حوالہ سے کی جاتی ہے اور فروخت نقدی میں ہوتی ہے، جس سے دستاویزی معیشت کو دھچکا لگتا ہے۔‘تاہم اس کے برعکس استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے حامیوں کا مؤقف اس سے مختلف ہے۔ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد اس درآمد کو پاکستانی مارکیٹ میں مثبت تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے نہ صرف مقامی اسمبلرز کی اجارہ داری ختم ہو گی، بلکہ شہریوں کو معیاری اور نسبتاً سستی گاڑیاں بھی دستیاب ہوں گی۔ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں بننے والی گاڑیاں محدود ماڈلز اور مہنگے داموں پر دستیاب ہیں۔‘ (فوٹو: پاک وہیلز)ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں بننے والی گاڑیاں محدود ماڈلز اور مہنگے داموں پر دستیاب ہیں، جس سے درمیانے طبقے کے لیے ذاتی ٹرانسپورٹ کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ ’حکومت اگر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے پالیسی کو بہتر اور شفاف بنائے، تو یہ صارفین کے لیے ایک بہتر آپشن بن سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب مقامی پیداوار قیمت اور معیار دونوں محاذوں پر سوالات کی زد میں ہے۔‘بقا یا مقابلہ؟یہ سوال آج پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے سامنے ہے کہ کیا اسے بند دروازوں کے پیچھے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ زندہ رہ سکے، یا اسے مسابقتی فضا میں آزمایا جائے جہاں معیار اور قیمت دونوں صارف کی ترجیح بنیں؟ بظاہر موجودہ صنعتی پالیسی نہ تو مکمل تحفظ دیتی ہے، نہ ہی مکمل مسابقت کی اجازت۔پاکستان کے آٹو سیکٹر کی موجودہ صورتِ حال ایک متوازن، شفاف اور طویل المدتی پالیسی کی متقاضی ہے۔ ایسی پالیسی جو ایک طرف مقامی صنعت کو مستحکم کرے، اور دوسری طرف صارفین کو بہتر انتخاب اور مناسب قیمت پر گاڑیاں دستیاب ہونے دے۔اس کے لیے تھائی لینڈ اور ویت نام جیسے ماڈلز سے سیکھنا، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کو فروغ دینا، اور برآمدات کے دروازے کھولنا ضروری ہو گا۔