انتونیو سالازار: پڑوسیوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد جنسی استحصال اور تشدد کا نشانہ بننے والا بچہ جو امریکہ کا کامیاب ترین وکیل بنا


Antonio Salazar-Hobsonاغوا کے بعد انتونیو کی زندگی میں تکالیف، تنہائی اورخاموشی تھیانتونیو سالازار ہوبسن کی عمر چار سال تھی جب امریکی ریاست اریزونا میں اُن کے ہمسائے انھیں اغوا کر کے 300 میل دور ریاست کیلفورنیا لے گئے جہاں وہ بدترین تشدد اور استحصال کے دوران پروان چڑھے۔اس کے بعد خاموشی، استحصال اور گھر واپسی کی شدید خواہش کا ایک دردناک سفر شروع ہوا۔’وہ دنیا کی خوبصورت ترین عورت تھیں۔‘انتونیو سالاز ہوبسن کو بس یہی یاد تھا کہ صبح وہ اپنی ماں کو ناشتے میں کافی اور باریتو بناتے ہوئے دیکھتے تھے۔انتونیو میکسیکن نژاد امریکی خاندان میں پیدا ہوئے اور چودہ بہن بھائیوں میں وہ گیارہویں نمبر پر تھے۔ اُن کے والدین فینکس، اریزونا میں کھیتوں میں کام کرتے تھے۔تین سال کی عمر تک انتونیو بول نہیں سکتے تھے لیکن وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتے تھے۔ گھریلو تشدد اور پریشانیوں کے باوجود بھی اُن کی ماں اپنے خاموش لیکن سمجھدار بیٹے کا بہت خیال رکھتی تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد عمومًا شراب کے نشے میں جھنجھلائے ہوئے رہتے، وہ میری ماں کو ایک ہفتے میں پانچ سے چھ بار مارتے پیٹتے تھے۔‘لیکن تمام پریشانیوں کے باوجود اُن کے ماں شفیق تھیں۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انتونیو مسکرانے لگے۔انتونیوں اب ایک انتہائی کامیاب وکیل ہیں جن کا کام طاقتور کارپوریشنز سے ٹکر لینا ہے۔ وہ غریب اور پسماندہ افراد کے لیے بہتر اجرت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کبھی کوئی مقدمہ نہیں ہارا۔لیکن اس پہلے کہ وہ جیتنا شروع کرتے، انتونیو کو سب کچھ کھونا پڑا تھا۔انتونیو کی زندگی میں تکالیف، تنہائی اور خاموشی تھی مگر اس تکلیف میں اپنے آبا و اجداد کے ساتھ گہرے تعلق اور استحکام نے انھیں زندگی کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دی۔Antonio Salazar-Hobsonانتونیو کے والد میکسیکو سے امریکہ آئے لیکن اُن کی پیدائش فینکس امریکہ میں ہوئی۔مہربانیاں کیسے ظلم میں تبدیل ہو گئیںانتونیو کے والدین کم اجرت پر کپاس کے کھیتوں اور باغات میں کئی کئی گھنٹے کام کرتے تھے۔ ان باغات میں کام کرنے والے اکثر مزدور میکسیکو سے امریکہ آئے تھے۔ یہ خاندان اپنے گھروں میں ہسپانوی زبان بولتے تھے۔ان کی زندگیاں اُس وقت تبدیل ہوئیں جب چیکانو ( میکسین نژاد امریکی) کے محلوں میں ایک سفید تعلیم یافتہ جوڑے نے گھر لیا۔ سارہ اور جان ہوبسن ہسپانوی اور انگریزی دونوں زبانیں بولتے تھے اور ان کے اپنے بچے نہیں تھے۔ انھوں نے کم آمدنی کے شکار سالازار خاندان کو مدد کی پیشکش کی۔ ان کے بچوں کو اپنے گھر بلایا۔ انھیں جوتے دیے، کھانا دیا اور جلد ہی اس خاندان کا اعتماد جیت لیا۔لیکن اُن کی کچھ مذموم ارادے تھے۔ کچھ ہی ماہ بعد ہوبسن نے انتونیو کو کبھی کبھار اپنے گھر پر رہنے کی دعوت دی۔ بس اُس وقت سے ہی اُن کا استحصال شروع ہوا۔’ایک وعدہ‘ اور ڈیلیٹ شدہ میسج: اپنی ہی نومولود بیٹی کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار والد پر پولیس کو کیوں شک ہوا؟اغوا کے بعد بازیاب ہونے والی چنگیز خان کی وہ اہلیہ جن کے مشوروں اور مدد سے منگول سلطنت کی بنیاد رکھی گئیپی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہائی جیکر 37 سال بعد رہا: عبدالمنان ’موزے میں پستول‘ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ٹانک میں اغوا ہونے والے نوید ظفر جو بازیاب ہونے کے باوجود زندہ گھر نہ پہنچ سکےپہلے اس جوڑے نے انھیں ہراساں کیا، پھر دوسرے مرد بھی اُن کے گھر آنے لگے۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک اُس وقت تک چلتا رہا جب تک انتونیو کے گھر والوں کو کچھ پتا نہ چل گیا۔’پہلی مرتبہ جب مجھے ہراساں کیا گیا تو میں بول نہیں سکتا تھا، میں اپنے والدین یا کسی اور سے اس پر بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں جو محسوس کر رہا تھا وہ بے حد شرمندگی اور احساسِ جرم تھا۔‘آخرکار انتونیو کے والدین نے محسوس کیا کہ اُن کا وزن کم ہو رہا ہے اور آنکھیں دھندلا رہی ہیں۔ جنوری 1960 میں انتھویو اور اُن کے بہن بھائیوں پر ہوبسن خاندان کے گھر آنے جانے پر پابندی لگ گئی۔Antonio Salazar-Hobsonاُن کے علاقے میں گھر لینے والے ہوبسن خاندان کی مہربانیوں کے پیچھے مذموم مقاصد تھےفروری 1960 میں ہوبسنز کی انتونیو کی زندگی میں دوبارہ واپسی ہوئی۔ وہ سالازار کے گھر اُس وقت آئے جب اُن کے والدین کھیتوں میں کام کے لیے گئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے چھ بہن بھائیوں کے ساتھ گھر پر تھے اور اُن سب کی دیکھ بھال اُن کے بھائی ریوڈی کی ذمہ داری تھی جس کی عمر نو سال تھی۔گھر کے باہر ہی کھڑے ہو کر ہوبسنز نے کہا کہ وہ بازار سے آئس کریم خریدنے کے لیے جانا چاہتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انتونیو ساتھ چلے گا۔’میں نے انکار کیا اور چھپ گیا لیکن ایک بچے نے باہر جھانکنے کے لیے تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ اسی دوران جان نے مجھے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا اور فرار ہو گیا۔‘’اُس رات وہ مجھے کیلیفورنیا لے گئے تھے۔‘جب انھیں اغوا کیا گیا تو اُن کے عمر محض چار سال اور چار ماہ تھی۔خاموشی میں زندگی کی تلاش Antonio Salazar-Hobsonانتونیو سالازاراپنے گھر سے پانچ سو کلو میٹر دور انھیں تنہائی میں رکھا گیا اور یہاں کئی سال تک ہونے والے جنسی استحصال اور تشدد نے انھیں دوبارہ خاموش کر دیا۔’مجھ میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ میں اپنے خاندان کو تلاش کر سکوں۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ مجھے کرنا کیا ہے۔‘انھوں نے پندرہ اینٹوں کو زمین میں دفن کر رکھا تھا، 13 بہن بھائیوں کی اور دو والدین کی تھیں۔ہر صبح وہ ان اینٹوں سے ایسے گفتگو کرتے جیسے ان کے والدین اور بہن بھائی ان کے سامنے بیٹھے ہوں۔’میں انھیں بتاتا کہ میں انھیں یاد کرتا ہوں، انھیں پیار کرتا ہوں اور اُن سے جلد واپسی کا وعدہ بھی کرتا۔ اس سے میں جذباتی طور پر مستحکم اور زندہ رہ سکا۔‘ڈھائی سال کے بعد انھیں اُس علاقے میں ایک مرغی فارم ملا، جہاں کام کرنے والے لاطینی تھے اور وہ انتونیو کی مادری زبان ہسپانوی بولتے تھے۔انھوں نے موسمِ گرما اُن کے ساتھ گزارا۔ جب وہاں خواتین کو پتا چلا کہ وہ میکسیکن ہیں تو وہ انھیں ہر روز ناشتہ اور دوپہر کا کھانا دیتیں۔’جب سے مجھے اغوا کیا گیا تھا تب سے کوئی بھی مجھ پر اتنا مہربان نہیں ہوا تھا۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ میں کون تھا، میں چیکانو تھا اور یہ میرے لوگ تھے۔‘ایک چرواہا جس نے اُن کی جان بچائیBilly Douglasانتونیو ایک فارم میں موجود ہیں اغوا کے تین سال کے بعد ہوبسن خاندان نے انتونیو کو سکول میں داخل کروایا اور اُن کا نام’ٹونی ایس ہوبسن‘ لکھوایا۔وہاں انھوں نے جلد انگریزی زبان سیکھی لیکن کبھی ہوبسن سے انگریزی میں بات نہیں کی۔جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو انھیں کام کے لیے ریاست نیوڈا بھیچ دیا گیا، جہاں دوسرے مردوں نے انھیں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔’انھوں نے مجھے بتایا کہ میں گھڑ سورای سیکھوں گا۔ ظاہر ہے کہ میں یہ نہیں جانتا تھا یہ پیڈوفائلز کا حربہ ہے۔‘تیسرے موسمِ گرما میں اُن کی عمر نو سال تھی جب انھوں نے خود اپنی جان لینے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہوئی۔رائے نامی ایک چرواہے نے انھیں بچایا اور کھیت کے مالکان کو قانونی کارروائی کی دھمکی دی، جس کے بعد انتونیو کو واپس کیلیفورنیا بھجوا دیا گیا۔ اس طرح زیادتی کا یہ سلسلہ رک گیا۔ہوبسز کی زندگی میں تبدیلیاں آ گئیں تھیں، جان کی نوکری ختم ہو گئی تھی اور سارہ بہت زیادہ شراب نوشی کے سبب تشدد پر اُتر آئی تھیں۔انتونیو نے ارادہ کیا کہ وہ تعلیم حاصل کریں گے اور پھر وہ لانڈری روم میں گھنٹوں رات دیر تک اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے۔’میں نے فیصلہ کیا کہ میں نے خود بھی پڑھنا ہے اور دوسروں کی مدد بھی کرنی ہے۔‘قائد اور ہیرو سے ملاقات Getty Imagesسیزر شاویز میکسکن نژاد امریکی کسان تھے جنہوں نے کسان یونین کی بنیاد رکھی۔13 سال کی عمر میں انتونیو اپنے والدین کی طرح کھیتوں میں کام کرتے تھے لیکن اب اپنا زیادہ وقت چیکانو خاندان اور طلبہ کارکنوں کے ساتھ گزارتے تھے۔امریکہ میں فارم ورکز کی سب سے بڑی یونین یونائیٹیڈ فارم ورکرز کی ریلی میں اُن کی ملاقات کسانوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والے رہنما سیزر شاویز سے ہوئی۔ انتونیو نے انھیں بتایا کہ وہ کم عمری میں اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے، ظلم و زیادتیاں برداشت کیں اور اب وہ انصاف کے لیے لڑنا چاہتے ہیں۔شاویز نے انھیں ساتھ کام کرنے کی دعوت دی اور ایک سال بعد انھیں کہا کہ وہ مزدوروں کے وکیل بن جائیں۔انتونیو کہتے ہیں کہ ’اپنے خاندان کو تلاش کرنے کے علاوہ میرا کوئی اور خواب نہیں تھا لیکن سیزر شاویز نے مجھے ایک اور خواب دیا۔‘انتونیو کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں اسکالرشپ ملی اور اُن کی گریجویشن کے اگلے دن ہوبسن نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا۔گھر سے نکلتے ہوئے اُن کے پاس سوائے ایک سوٹ کیس کے کچھ نہیں تھا لیکن وہ آزادی کے بھرپور احساس سے سرشار تھے۔’میرے خیال میں وہ ایک عظیم دن تھا۔ اب وہ مجھے دوبارہ کبھی تنگ نہیں کر سکتے تھے۔‘اُس کے بعد انھوں نے ہوبسز خاندان کی دوبارہ کبھی شکل نہیں دیکھی۔خود سے کیے گئے وعدےAntonio Salazar-Hobsonانتونیو اور اُن کی اہلیہ کیتھرینانتونیو نے سیزر شاویز کی بات کا مان رکھا اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک کامیاب وکیل بن گئے۔فارم ورکرز اور پسماندہ کمیونٹیز کے لیے مقدمات جیتتے رہے۔اپنی بیوی کیتھرین کے تعاون سے انھوں نے نجی تحقیقاتی ایجنسی کی خدمات لیں اور جلد ہی انھیں اپنے بہن بھائیوں کا اتا پتا معلوم ہوگیا۔انتونیو کو خدشہ تھا کہ کہیں اُن کے اہلخانے انھیں مسترد نہ کر دیں۔ لیکن ان کے بھائی رایمن کو جب اپنے گمشدہ بھائی کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے کہا کہ ہم اُن کا کب سے انتظار کر رہے ہیں۔انتونیو کا پہلا سوال یہ تھا کہ ’کیا میری ماں زندہ ہے؟‘جواب ملا کہ ’ہاں وہ زندہ ہیں۔‘بچھڑے ہوئے خاندان سے ملاپBilly Douglasخاندان سے ملاپ بہت جذباتی تھا۔ اُن کی ماں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھا اور انھیں گلے لگا لیا۔ بہنوں نے پُرنم آنکھوں سے استقبال کیا۔انتونیو کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے میرا بچپن دوبارہ واپس آ گیا ہو۔‘اُن کی گمشدگی کے بعد پورا خاندان ہی ٹراما سے گزرا۔ اُن کے والد نے گمشدگی کی ذمہ داری بھائی اور ماں پر عائد کی۔ ان کے بھائی کو ایک بورڈنگ سکول بھجوا دیا گیا تھا۔ یہ خاندان کبھی بھی اس غم سے باہر نہیں نکل سکا۔انتونیو نے اپنا ماں کے ساتھ دو سال گزرے۔’وہ محبت کرنے والی اور خوش مزاج خاتون تھیں، اُن کے ہاتھوں اور چہرے سے زندگی میں برداشت کی گئی سختیاں نمایاں تھیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے اُن سے متاثر ہوں۔‘مظلوموں کی آواز Wyatt-MacKenzie Publishing, Inc.انھوں نے اپنی زندگی کے اس سفر پر کتاب لکھیاس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں میں انتونیو کا اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے ساتھ دیرپا تعلق قائم ہو گیا۔انتونیو اور کیتھرین کے دو بچے ہیں اور اب جب وہ دونوں کافی بوڑھے ہو گئے ہیں۔انتونیو نے کہا کہ ’میرے بچے انتہائی وفادار رہے ہیں اور میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنی بیوی کی محبت میں کیا کیونکہ وہ کہتی تھی کہ آپ یہ کر سکتے ہیں اور وہ صحیح تھی۔‘انتونیو نے عوامی طور پر اس بارے میں بات چیت کی، ہراسانی اور اسمگلنگ کے خلاف مہم چلائی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ سنانے کے لیے ایک مشکل کہانی ہے لیکن اسے بیان کرنا ضروری ہے۔ مجھے پتا ہے کہ یہ اب بھی ہو رہا ہے۔میں ہزاروں میں سے صرف ایک تھا۔‘آج وہ کمزوروں کی آواز اٹھانے والے ایک زبردست وکیل ہیں۔’آپ کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے آپ سیریل کلر بن سکتے ہیں یا آپ مہربان اور شفیق ہو سکتے ہیں۔ میری ماں نے مجھے مہربان ہونا سکھایا۔‘’روشنی کی جانب بھاگا۔ نیکی کی طرف بڑھااپنے کام کی قدر کی۔‘ٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیںلگ بھگ پانچ کروڑ تارکین وطن کے بغیر امریکہ کیسا نظر آئے گا؟ٹرمپ کا ’پیدائش پر شہریت‘ کا قانون ختم کرنے کا اعلان: کیا پناہ گزینوں کے بچوں کو امریکی شہری نہیں مانا جائے گا؟گلگت سے ’اغوا‘ ہونے والی کم عمر بچی کی مانسہرہ میں شادی: ’میری بیٹی نے صرف چھ جماعتیں پاس کی ہیں‘اغواکاروں سے مذاکرات: وہ شخص جو بغیر معاوضہ لیے ’نرم لہجے میں بات کر کے‘ یرغمالیوں کو رہا کرواتا ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

’یہ پورا ڈرامہ تھا‘: 17 کروڑ پاؤنڈ کے فراڈ میں ملوث زیورات کا بیوپاری سرمایہ کاروں کو دھوکا دے کر کیسے غائب ہوا؟

دیو سائی میں گلوکارہ قرۃ العین بلوچ پر ریچھ کا حملہ: ’بھوکا ریچھ خوراک کی تلاش میں تھا اور ٹینٹ پھاڑ کر اندر داخل ہوا‘

کابینہ اجلاس : پن بجلی منافع بڑھانے، بی آر ٹی اضافی بسوں کی منظوری کا امکان

اسکول ہیڈ ماسٹر کا ٹرک کی ٹکر سے انتقال۔۔ افسوس ناک حادثہ کس جگہ پیش آیا؟

انتونیو سالازار: پڑوسیوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد جنسی استحصال اور تشدد کا نشانہ بننے والا بچہ جو امریکہ کا کامیاب ترین وکیل بنا

صدیوں پہلے آنے والا مہلک ترین زلزلہ، جس سے قبل لوگ قدرتی آفات کو ’خدا کا عذاب‘ سمجھتے تھے

ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کا الٹی میٹم ، معافی مانگو ورنہ ؟؟

بلوچستان میں آج پھر موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل

ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کیس : ملزم حسن زاہد سے ملاقات کیوں روک دی گئی؟

دنیا کے مقبول ترین فیشن ڈیزائنر جورجیو ارمانی چل بسے

دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب، کئی بند ٹوٹ گئے، متعدد علاقے زیر آب

تہران کا ’زیرو ڈے‘: ایرانی دارالحکومت کے ایک کروڑ باشندوں کے لیے پانی کیسے ختم ہو رہا ہے

تہران میں’پانی کا دیوالیہ پن‘: ایران کے دارالحکومت میں ایک کروڑ لوگ کیسے پانی سے محروم ہو رہے ہیں

برطانیہ میں پاکستانی کرکٹر حیدر علی کے خلاف تحقیقات بند: گریٹر مانچسٹر پولیس نے کیا بتایا؟

صدر شی اور پوتن کے درمیان اعضا کے ٹرانسپلانٹ پر گفتگو: کیا اس سے موت کو ٹالا جا سکتا ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی