
BBCاپریل 2023 میں یہ پرکشش جیولری ریٹیل بزنس دیوالیہ ہو گیایہ کہانی اس فراڈ کے گرد گھومتی ہے جس میں سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک جیولری شاپ کے مالک نے ’فول پروف‘ منصوبہ بنایا۔بی بی سی پینوراما کی رپورٹ کے مطابق زیورات کے ایک تاجر نے اپنے ملازمین کو ہدایت دی کہ وہ گاہکوں کا روپ دھار لیں۔ اس منصوبے کے پیچھے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کا مقصد چھپا تھا تاکہ کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں کو یہ لگے کہ زیورات کا بزنس بہت اچھا چل رہا ہے۔اس فریب کے ذریعے ہیروں کے تاجر واشی ڈومنگیز مزید سرمایہ کاروں سے رقوم حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ان کا کاروبار چلتا رہا، تاہم 2023 میں 17 کروڑ پاؤنڈ کا قرض چڑھ جانےکے بعد یہ کاروبار ٹھپ ہو گیا اور یوں سرمایہ کار اپنا سب کچھ کھو بیٹھے۔واشی جیولرز کی ریٹیل چین نے جن ہیروں کی مالیت 15 کروڑ 17 لاکھ پاؤنڈ بتائی تھی وہ ہیرے بعد میں محض ایک لاکھ پاؤنڈ مالیت کے نکلے۔ایک طرف ان جیولری سٹورز کے مالک واشی ڈومنگیز غائب ہوگئے۔ دوسری طرف میٹروپولیٹن پولیس اور سیریئس فراڈ آفس دونوں نے اس معاملے کی تحقیقات میں کوئی تیزی نہ دکھائی۔بی بی سی پینوراما نے سٹور کے سابق ملازمین، سرمایہ کاروں اور مالیاتی ماہرین سے بات کی ہے، جو کمپنی کی بربادی کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ واشی ڈومنگیز نے اتنے زیادہ لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنایا اور حکام آخر ان کی تلاش کیوں نہیں کر رہے۔اس حوالے سے واشی جیولرز میں سرمایہ کاری کرنے والے اشتہاروں کی ایک کمپنی کے ایگزیکٹیو مائیکل موزنسکی نے کہا: ’یہ دا گریٹ ٹرین رابری سے بڑا سکینڈل ہے۔‘زیورات کے ’پائڈ پائپر‘واشی ڈومنگیز کو ’جیولری کا پائڈ پائپر‘ (زیورات کے سحر میں جکڑنے والے) بھی کہا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے اپنی پہچان ہیروں کے شوقین امیروں کو ڈائمنڈز کی فراہمی سے بنائی تھی۔ جیسے جیسے ان کے ہیروں کے گاہک بڑھتے گئے ان کی شہرت بھی بڑھتی گئی۔وہ آئی ٹی وی کے پروگرام ’دِس مارننگ‘ میں بھی آئے تھے جہاں انھوں نے ہولی ولوبی اور فلپ شوفیلڈ سے جب بات چیت کی تھی۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں کرسٹلکا انڈہ تھا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس کی قیمت پانچ ملین پاؤنڈ ہے اور وہ اسے کینیڈا کے ایک ارب پتی کو بیچ رہے ہیں۔واشی کے سابق سٹور مینیجر ول ہیورڈ ان کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’واشی بہت متحرک اور بے حد پُرکشش شخصیت کے مالک رہے ہیں اور وہ زیورات کے کاروبار میں بالکل پائڈ پائپر جیسے لگتے تھے۔‘2017 تک واشی ڈومنگیز صرف دولت مندوں کے پسندیدہ ہیروں کے ڈیلر نہیں رہے تھے بلکہ وہ ہائی سٹریٹ برانڈ بن چکے تھے اور ان کی واشی کے نام سے لندن، برمنگھم اور مانچسٹر میں دکانیں موجود تھیں۔واشی ڈومنگیز کا کہنا تھا کہ وہ زیورات کی دنیا میں لوگوں کو ایک نیا تجربہ فراہم کر رہے ہیں، جہاں گاہک ڈیزائنرز کے ساتھ مل کر ڈیزائن بنا سکتے تھے اور پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی جیولری تیار ہوتے دیکھ سکتے تھے۔یہی نہیں بلکہ گاہکوں سے وعدہ کیا جاتا تھا کہ انھیں مہنگے ترین ہیرے نسبتاً کم قیمت پر دستیاب ہوں گے۔ سرمایہ کار مائیکل موزنسکی کا کہنا ہے کہ ’واشی میں ایک خاص کشش تھی۔ ان میں رعب و دبدبہ بھی تھا، ذہانت بھی تھی اور وہ اپنے کاروبار کے ہر پہلو پر بڑے پُراعتماد انداز میں بات کرتے تھے۔‘واشی ڈومنگیز نے اپنے خیالات کو تفصیلی بزنس پلانز اور اکاؤنٹس کے ذریعے مضبوط بنیاد دینے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے ماہر سرمایہ کاروں کو بھی دھوکہ دیا جن میں پریٹ اے مانگر فوڈ چین کے سابق سربراہ کلائیو شلی اور موبائل فون بنانے والے ارب پتی جان کاڈویل شامل تھے۔جی بی نیوز کے شریک بانی اور میڈیا ایگزیکٹومارک شنیڈر نے بھی تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔ یہاں کے کچھ ذہین لوگ پہلے ہی اس ڈیل میں شامل تھے، میں نے بھی اسی بنیاد پر اس میں سرمایہ لگا دیا۔‘یہ کاروبار بظاہر بہت کامیاب دکھائی دے رہا تھا۔ 2021 میں ڈومنگیز نے لندن کے وسطی علاقے کووینٹ گارڈن میں اپنا نیا فلیگ شپ سٹور کھولا۔ سٹاف کے مطابق یہ دکان نہایت لگژری انداز میں بنائی گئی تھی، جس میں ایک بڑی ڈسپلے سکرین اور آٹھ ہزار پاؤنڈ مالیت کا صوفہ بھی رکھا گیا تھا۔دکان میں رش دکھانے کے لیے گاہکوں کے بھیس میں ملازمBBC تاہم جیولری شاپ کےاندر کام کرنے والے ملازمین اس سارے معاملے سے مطمئن نہیں تھے اور ان کو شبہ تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ واشی کی سابق ڈیٹا اینلسٹ شارلٹ پال کا کہنا ہے کہ ’اس ساری چمک دمک سے ہٹ کر حقیقت یہ تھی کہ دن بھر میں دو، تین یا زیادہ سے زیادہ چار لوگ آتے تھے اور یہ سب لندن کے سب سے مصروف ترین سکوائر میں ہو رہا تھا۔‘مزید سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے واشی ڈومنگیز نے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے سٹاف کو کہا کہ وہ گاہک بن کر کھڑے ہوں تاکہ دکان میں رش کا تاثر دیا جا سکے۔ایک ای میل میں صاف الفاظ میں لکھا گیا کہ ’یہ ہدایت براہِ راست واشی کی طرف سے ہیں کیونکہ وہ بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور کسی بھی وقت وہ اچانک دکان کا دورہ کر سکتے ہیں۔‘اس کے علاوہ سیلز سٹاف جنھیں زیورات بنانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انھیں بھی کام کی میزوں پر بٹھا دیا جاتا تھا تاکہ وہ سونے یا ہیروں کو تراشنے کا ڈرامہ کریں۔واشی کے سابق سٹور مینیجر وِل ہیورڈ کے مطابق ’یہ پورا ایک ڈرامہ تھا جو واشی سرمایہ کاروں کے سامنے کرتے تھے۔ وہ دکھاتے تھے کہ کتنے زیادہ آرڈرز آ رہے ہیں اور ہم کتنے مصروف ہیں تاکہ سرمایہ کار یہ سوچیں کہ انھیں واقعی واشی کے کاروبار میں انویسٹ کرنا چاہیے۔‘’ہمارا کوئی تعلق نہیں‘BBCبی بی سی نے اکاؤنٹنٹ رجنی کانت پٹیل کو مشرقی لندن کے ایلفورڈ میں واقع ان کے دفاتر میں بات چیت کیواشی ڈومنگیز کی کمپنی مسلسل زوال کا شکار ہو رہی تھی لیکن خود ان کا طرز زندگی اب بھی شاہانہ تھا۔ کمپنی ہی ان کی قیمتی لگژری گاڑیوں بشمول لیمبورگینی اور لندن کے مہنگے ترین علاقوں جیسے میفیئر میں کئی فلیٹس کا کرایہ ادا کر رہی تھی۔لیکن یہ سب زیادہ دیر نہ چل سکا اور اپریل 2023 میں یہ پرکشش جیولری ریٹیل بزنس دیوالیہ ہو گیا۔سرمایہ کاروں کو سخت جھٹکا لگا لیکن ان کا خیال تھا کہ ان کی رقم محفوظ ہے کیونکہ فروری میں انھیں ایسی رپورٹس بھیجی گئی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی کے ہیرے 157 ملین پاؤنڈ کے ہیں۔لیکن بعد میں یہ بھی ایک فریب ثابت ہوا۔ اپریل میں جب ہیرے کی مالیت جانچنے کے لیے ماہر روب ویک واکر کو بلایا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’ہمارا سب سے پہلا سوال یہی تھا کہ کیا اس کے علاوہ اور ہیرے بھی موجود ہیں؟‘ان ہیروں کی مالیت اور مشکوک اکاؤنٹس پر دستخط کرنے والے بھی ایک اصلی اکاؤنٹنٹ تھے جن کا نام راجنی کانت پٹیل تھا۔ رجنی کانت مشرقی لندن کے علاقے الفورڈ میں دکانوں کی ایک قطار کے درمیان واقع ایک چھوٹے سے دفتر سے کام کرتے تھے۔گرفتاری سے بچنے کے لیے چور نے 14 کروڑ روپے کی بالیاں نِگل لیں 6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتا1.7 ارب روپے مالیت کے 98 کلوگرام وزنی سونے کے ٹوائلٹ کی چوری: ’چور فقط پانچ منٹ میں ٹوائلٹ لے اڑے‘لندن میں کروڑوں روپے کے زیورات غائب: چور کا سراغ لگانے میں مدد کرنے والے کو 15 لاکھ پاؤنڈ تک انعام دیا جائے گاہم نے رجنی کانت پٹیل کو خطوط لکھے لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔ لہٰذا میں ان سے ملنے گیا اور پوچھا کہ غائب ہونے والی رقم کہاں گئی؟رجنی پٹیل نے کہا کہ انھیں معلوم نہیں کہ پیسہ کہاں ہے اور وہ اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتے تاکہ مستقبل میں اگر واشی ڈومنگیز کے خلاف مقدمہ چلے تو اس پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔جب ان سے پیسہ ڈوب جانے والے سرمایہ کاروں کے بارے میں پوچھا گیا تو رجنی پٹیل کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں لگتا کہ کسی نے صرف ہمارے اکاؤنٹس کی بنیاد پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا۔انھوں نے کہا ’یقیناً یہ اچھی بات نہیں ہے۔ شیئر ہولڈرز اور سرمایہ کاروں نے اپنی رقم کھو دی۔ مجھے اس پر بے حد افسوس ہے، لیکن اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘رجنی پٹیل کا مزید کہنا تھا کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ اکاؤنٹس میں درج اعداد و شمار غلط ہیں اور اگر انھیں یہ علم ہوتا تو وہ کبھی ان پر دستخط نہ کرتے۔لیکویڈیٹر بینجی ڈائمینٹ کے مطابق کمپنی پر 170 ملین پاؤنڈ کے واجبات ہیں جن میں سے 100 ملین پاؤنڈ سے زیادہ سرمایہ کاروں کے ہیں۔ ڈائمینٹ واشی ڈومنگیز سے سوال کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ان کے غائب ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی بی سی ان پر لگائے گئے الزامات پر ان کا موقف لینے میں ناکام رہا۔بینک سٹیٹمنٹس کی بنیاد پر ڈائمینٹ کا دعویٰ ہے کہ انھیں پتا ہے کہ واشی ڈومنگیز اسی دن دبئی کے لیے روانہ ہوئے تھے جس دن عدالت نے کمپنی کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔لیکویڈیٹر نے کہا کہ ’ہم نے پرائیویٹ انویسٹی گیٹرز کی خدمات حاصل کی ہیں اور کئی مقامات پر ان کی جھلک نظر آئی ہے، لیکن ہمیں کسی مخصوص رہائش یا مقامپر ان کی موجودگی کے پختہ ثبوت نہیں ملے۔‘چمک دمک اور فریبواشی ڈومنگیز نے سرمایہ کاروں، سٹاف اور ٹیکس حکام کو دھوکہ دیا لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی تلاش کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ پولیس اور نہ ہی سیریئس فراڈ آفس نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں۔ سرمایہ کار اس بات پر حیران ہیں کہ کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔امریکی سرمایہ کار مارک شنیڈر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ لوگ درحقیقت کر کیا رہے ہیں؟ آپ کے ملک میں لوگوں کو اتنے کھلے عام لوٹا جا سکتا ہے اور آپ یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اس شخص کو کس طرح پکڑا جائے یا دھوکے پر کارروائی کی جائے۔‘سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ انھیں میٹروپولیٹن پولیس اور ایس ایف او کے درمیان گھمایا جاتا رہا یہاں تک کے ایس ایف او نے یہ کہہ کر کیس لینے سے انکار کر دیا کہ یہ ان کے لیے پیچیدہ کیس نہیں ہے۔ایس ایف او نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہر سال صرف ’انتہائی اعلیٰ سطح کے چند اقتصادی جرائم کے کیسز‘ لیتا ہے۔پیسہ اور واشی دونوں ہی غائبBBCسابق سٹور مینیجر ول ہیورڈ کے مطابق واشی سرمایہ کاروں کے سامنے پورا ایک ڈرامہ کرتے تھےدوسری جانب سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشی ڈومنگیز نے ایک مکمل جرم کا ارتکاب کیا اور دولت سمیٹ کر فرار ہو گئے۔ لیکن کمپنی کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے والے لیکویڈیٹرکا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اس نے غائب ہونے والی بڑی رقم اپنے ساتھ لے لی ہو۔بینجی ڈائمینٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں بینک سٹیٹمنٹس میں کہیں بھی بڑی رقوم یا نمایاں ادائیگیاں نظر نہیں آئیں جو کسی آف شور اکاؤنٹ وغیرہ میں ڈالی گئی ہوں۔‘زیادہ تر سرمایہ کاروں کی طرح مارک شنیڈر کو بھی اپنا پیسہ واپس نہیں ملا۔ وہ اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آیا واشی شروع سے ہی ایک دھوکے باز تھے کہ یہ سب بعد میں شروع ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یقین نہیں کہ وہ محض اس بات سے گھبرا گئے ہوں گے کہ یہ سب کچھ ان کی توقع کے مطابق نہیں چل رہا تھا یا پھر انھوں نے شروع سے ہی سب کچھ اسی طرح کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔‘ تاہم جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ واشی ڈومنگیز نے چمک دمک اور پرکشش انداز سے سرمایہ کاروں کو لبھا کر کروڑوں پاؤنڈ حاصل کیے، پھر پیسے کے ساتھ غائب ہو گئے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے چور نے 14 کروڑ روپے کی بالیاں نِگل لیں 1.7 ارب روپے مالیت کے 98 کلوگرام وزنی سونے کے ٹوائلٹ کی چوری: ’چور فقط پانچ منٹ میں ٹوائلٹ لے اڑے‘لندن میں کروڑوں روپے کے زیورات غائب: چور کا سراغ لگانے میں مدد کرنے والے کو 15 لاکھ پاؤنڈ تک انعام دیا جائے گا6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتابرطانیہ میں چار بڑے ہاتھیوں کے وزن کے برابر تین لاکھ پاؤنڈ کی پنیر کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا’منحوس ہیرے‘: وہ جواہرات جن سے جڑی کہانیوں نے ان کی مقبولیت اور قیمت کو بڑھا دیا