
Getty Images’ٹرمپ نے شرم الشیخ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے کام مکمل ہو گیا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل اور مصر کا حالیہ مختصر دورہ اُن کے لیے کسی فتح کے جشن سے کم نہ تھا، اور بظاہر وہ ایسا ہی چاہتے تھے۔یروشلم اور شرم الشیخ میں کی گئی تقریروں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنی طاقت سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اُن کے لیے تالیاں بجیں اور مصر میں وہ اِس بات پر فخر کرتے نظر آئے کہ دنیا کے اتنے سارے سربراہان مملکت اُن سے ملنے آئے ہیں۔کمرے میں موجود ایک تجربہ کار سفارتکار نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے ٹرمپ نے یہاں (شرم الشیخ) موجود عالمی رہنماؤں کو اپنی فلم کا معاون اداکار سمجھ رکھا ہو۔شرم الشیخ میں اُن کا پیغام بنیادی طور پر یہ تھا کہ انھوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے ساری زندگی صرف سودے کیے ہیں۔ عظیم ترین سودے، جو بس خودبخود ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔ شاید یہ (غزہ امن منصوبہ) اُن سب میں سب سے بڑا سودا ثابت ہو۔‘بہرحال ان کی تقریر سے یہ تاثر بھی مل رہا تھا کہ جیسے کام مکمل ہو چکا ہے مگر حقیقت اِس کے برعکس ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کا سہرا ٹرمپ اپنے سر لے سکتے ہیں۔ قطر، ترکی اور مصر نے حماس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تاکہ وہ معاہدہ تسلیم کرے۔یہ ایک مشترکہ کوشش تھی لیکن ٹرمپ کا کردار فیصلہ کُن تھا۔اگر ٹرمپ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو پر زور نہ دیتے کہ وہ اُن شرائط کو مانیں جنھیں وہ پہلے مسترد کر چکے تھے، تو یہ معاہدہ کبھی نہ ہوتا۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ معاہدہ اصل میں کیا ہے اور کیا نہیں۔Reuters’ٹرمپ نے نتن یاہو کو وہ باتیں ماننے پر مجبور کیا جن کو ماننے پر وہ کچھ دن پہلے تک راضی نہیں تھے‘یہ معاہدہ صرف جنگ بندی اور یرغمالیوں کے بدلے قیدیوں کی رہائی کا تھا۔ یہ نہ تو کوئی امن معاہدہ ہے اور نہ ہی امن کی بحالی کے عمل کی ابتدا۔ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے اگلے مرحلے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا معاہدہ ہو جو اس خاکے کو مکمل کرے جس کے مطابق غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنا کر، سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا اور فلسطینیوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے اس علاقے کا نظم و نسق سنبھالا جائے گا۔یہ کمیٹی ’بورڈ آف پیس‘ کو رپورٹ دے گی، جس کی صدارت صدر ٹرمپ کریں گے۔ اس منصوبے کی تفصیلات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سا کام ابھی باقی ہے۔یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں امن کا کوئی راستہ نہیں، جو اب تک ایک ناقابلِ حصول منزل ثابت ہوئی۔اسی قدر سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی حقیقی امن معاہدے کے لیے درکار سیاسی عزم کہیں نظر نہیں آتا۔ اکثر جنگیں تب ختم ہوتی ہیں جب لڑنے والے فریق تھک کر کسی نہ کسی معاہدے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ غزہ کی جنگ بھی انہی میں سے ایک ہے۔دوسرا طریقہ جنگ ختم کرنے کا یہ ہوتا ہے کہ ایک فریق مکمل فتح حاصل کر لے اور اپنی شرائط مسلط کرے۔ اس کی بہترین مثال سنہ 1945 میں نازی جرمنی کا غیر مشروط ہتھیار ڈالنا تھا۔9 ستمبر سے پہلے، جب نتن یاہو نے قطر پر میزائل حملے کا حکم دیا تھا، تو اس وقت بھی وہ یہی چاہتے دکھائی دے رہے تھے کہ اسرائیل کے دشمن کو اس حد تک کچلا جائے کہ اسرائیل غزہ کے مستقبل کا اکیلا فیصلہ کر سکے۔اس حملے سے ٹرمپ سخت ناراض ہوئے۔ٹرمپ کا سفر درحقیقت منزل نہیں بلکہ عارضی پڑاؤ کی جانب تھا: امریکی صدر کے ساتھ گزرے 24 گھنٹوں کی روداد ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟قطر امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈے کا سب سے بڑا میزبان۔ اس کے ساتھ ساتھ قطر میں ٹرمپ کے بیٹے منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔ نتن یاہو نے حملے کا جواز یہ دیا کہ نشانہ قطر نہیں، بلکہ حماس کی قیادت تھی اور یہ کہ میزائل ہدف سے چوک گیا، مگر ٹرمپ نےنتن یاہو کی یہ دلیل مسترد کر دی۔ٹرمپ کے نزدیک امریکہ کے مفادات اسرائیل سے مقدم ہیں۔ وہ جو بائیڈن کی طرح نہیں ہیں، جو اسرائیل کی حمایت کی خاطر امریکہ کے علاقائی اثر و رسوخ کو نقصان پہنچانے پر بھی آمادہ تھے۔اب ٹرمپ واپس واشنگٹن ڈی سی میں ہیں۔ سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو احساس ہے کہ اس معاہدے کی تفصیلات طے کرنا بہت اہم ہے اور یہ جلدی ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ شاید اُن کے پاس وقت کم ہو۔جنگ بندیوں کی ابتدائی مدت میں اکثر خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ جو جنگ بندیاں کامیاب ہوتی ہیں، ان کی بنیاد مضبوط معاہدوں پر ہوتی ہے، جو ایسے فریقین کرتے ہیں جو واقعی چاہتے ہیں کہ اس سمت میں کام ہو۔یہ خدشہ ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کو وہ بنیاد حاصل نہیں ہے۔ صرف 24 گھنٹے بعد، جب اسرائیلی اور فلسطینی، مختلف وجوہات کی بنا پر، قیدیوں اور یرغمالیوں کی واپسی پر خوش تھے، جنگ بندی میں دراڑیں ظاہر ہونے لگی ہیں۔حماس نے اب تک چار ایسے یرغمالیوں کی لاشیں واپس کی ہیں جو دورانِ قید مارے گئے تھے۔ حماس کا مؤقف ہے کہ اسرائیلی بمباری سے پیدا ہونے والے ملبے میں قبریں تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔اسرائیل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔اگر باقی لاشیں واپس نہ کی گئیں، تو یہ معاملہ اسرائیل میں شدید حساس بن جائے گا۔ردعمل کے طور پر، اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حماس اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا، وہ غزہ کو دی جانے والی امداد آدھی کر دیں گے اور مصر کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ دوبارہ نہیں کھولیں گے۔اسرائیل کے سخت گیر قوم پرست وزیر خزانہ بیزالل سموٹرچ، جو غزہ معاہدے کے مخالف ہیں، نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’صرف عسکری دباؤ سے ہی یرغمالی واپس آتے ہیں۔‘Getty Imagesٹرمپ نے وہاں موجود سربراہان مملکت کو معاون کردار ادا کرنے والا سمجھااسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) اب بھی غزہ کی پٹی کے 55 فیصد علاقے پر قابض ہے۔ آج صبح اس کے فوجیوں نے فلسطینیوں کو گولی ماری ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی پوزیشنز کے قریب آ رہے تھے۔ غزہ میں فلسطینی سول ڈیفنس نے بی بی سی کو بتایا کہ دو مختلف واقعات میں سات فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ممکن ہے کہ آئی ڈی ایف اب بھی وہی قواعدِ جنگ استعمال کر رہی ہو جو جنگ بندی سے پہلے نافذ تھے۔ ان قواعد کے تحت فوجی اپنی پوزیشنز کے اردگرد دو خیالی لائنیں تصور کرتے ہیں۔ اگر پہلی لائن عبور کی جائے تو وارننگ کے طور پر فائر کیا جاتا ہے۔ اگر فلسطینی آگے بڑھتے رہیں اور دوسری لائن پار کریں، تو فوجیوں کو گولی مارنے کی اجازت ہوتی ہے۔اس نظام کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ خیالی لائنیں کہاں ہیں۔ یہ اصل میں ہجوم پر قابو پانے کے لیے براہِ راست فائرنگ کا طریقہ ہے۔جہاں تک حماس کا تعلق ہے، وہ دوبارہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اس کے مسلح اور نقاب پوش جنگجو دوبارہ سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔ حماس نے ان مسلح حریف گروہوں پر حملے کیے ہیں جنھیں بعض اوقات اسرائیلی فوج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ایسی ویڈیوز بھی منظرِ عام پر آئی ہیں جن میں حماس نے آنکھوں پر پٹیاں باندھے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے مردوں کو قتل کیا، جن پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کا الزام تھا۔ان ہولناک ویڈیوز کے ذریعے حماس فلسطینیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر کوئی ان کی حکم عدولی کا سوچے بھی، تو وہ اپنے انجام سے باخبر رہے اور بیرونی دنیا کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کے باوجود حماس باقی ہے اور فعال ہے۔Reutersغزہ شہر ملبے میں تبدیل ہو گيا ہےٹرمپ کے غزہ منصوبے کے نکتہ نمبر 15 میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ’عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی بین الاقوامی سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تیار کرے گا، جو فوری طور پر غزہ میں تعینات کی جائے گی۔‘لیکن اگر جنگ بندی مضبوط بنیادوں پر قائم نہ ہو، تو ایسی کسی فورس کا تیار کرنا اور تعینات کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ممکنہ شراکت دار ممالک ایسے ماحول میں اپنی فوجیں نہیں بھیجیں گے جہاں انھیں حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے۔حماس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ کچھ بھاری ہتھیار چھوڑنے پر آمادہ ہو سکتی ہے، لیکن مکمل طور پر غیر مسلح ہونے پر راضی نہیں۔ اس کی بنیاد ہی اسرائیل کے خلاف اسلامی مزاحمت پر ہے، اور اسے معلوم ہے کہ اگر اس کے پاس ہتھیار نہ ہوں، تو اس کے فلسطینی دشمن اس سے بدلہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔دوسری جانب نتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ اگر کوئی اور یہ کام نہ کرے، تو اسرائیل خود کرے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ حماس کے ہتھیار ہر صورت میں ختم ہونے چاہییں، ’آسان طریقے سے یا مشکل طریقے سے۔‘ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ان کا غزہ معاہدہ، جیسا کہ وہ ہے، دریائے اُردن سے لے کر بحیرہ روم تک کی زمین پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان نسلوں سے جاری تنازع کو ختم کر دے گا۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ یہ پورے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر امن کا سبب بنے گا۔اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ امن قائم کرنے کا کام مکمل ہو چکا ہے، تو وہ خود فریبی کا شکار ہیں۔ صرف کوشش کرنے کے لیے بھی مسلسل توجہ، سخت سفارتی محنت اور لڑنے والے دونوں فریقین کی طرف سے یہ فیصلہ درکار ہوتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تکلیف دہ قربانیاں دی جائيں اور سمجھوتے کیے جائیں۔ امن قائم کرنے کے لیے کچھ خوابوں کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ماضی کے امریکی صدور بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کر سکتے تھے۔ لیکن ٹرمپ کو بھی بالآخر یہ سمجھ آ جائے گا کہ صرف کسی صدر کے طاقتور ہونے سے امن نہیں آتا، امن اس وقت آتا ہے جب دونوں فریق خود اسے ممکن بنانا چاہیں۔ٹرمپ کا سفر درحقیقت منزل نہیں بلکہ عارضی پڑاؤ کی جانب تھا: امریکی صدر کے ساتھ گزرے 24 گھنٹوں کی روداد ’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟صدر ٹرمپ کو ’پاکیزگی اور ابدیت‘ کی علامت سمجھا جانے والا تمغہِ نیل کیوں دیا گیا؟حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟ٹرمپ کو ’امن کا نوبیل انعام نہ سہی کیمسٹری میں نوبیل تو ملنا ہی چاہیے‘