
Getty Imagesپاکستان کرکت بورڈ نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں مزید دو نئی ٹیمیں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ 10 سال مکمل ہونے پر رواں ماہ فرنچائزز کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جائے گا۔پاکستان سپر لیگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر نے بدھ کو کراچی میں نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ پی ایس ایل میچز کا دائرہ کار اب لاہور، ملتان، راولپنڈی اور کراچی کے ساتھ ساتھ فیصل آباد اور پشاور تک بھی پھیلایا جائے گا۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ پشاور کے عمران خان سٹیڈیم میں کچھ تعمیراتی کام باقی ہے جبکہ فیصل آباد کا اقبال سٹیڈیم بین الاقوامی مقابلوں کے لیے تیار ہے۔ سلمان نصیر کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کی نئی ٹیمز کے لیے نومبر میں ٹینڈر جاری کیے جائیں گے، جن میں دلچسپی لینے والے مختلف شہروں کے ناموں میں سے اپنی مرضی کے نام کا انتخاب کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن کا آغاز سنہ 2016 میں ہوا تھا، جس میں لاہور قلندرز، کراچی کنگز، اسلام آباد یونائٹیڈ، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیمیں شامل تھیں۔ اس سے اگلے سیزن یعنی پی ایس ایل ٹو میں ملتان سلطانز کے اضافے کے ساتھ ٹیموں کی تعداد چھ ہو گئی تھی۔پاکستان سپر لیگ انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ حبیب بینک لمیٹیڈ کے ساتھ ٹائٹل سپانسر شپ کے معاہدے میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی ہے جس کے مطابق اب پی ایس ایل 11 اور پی ایس ایل 12 کا ٹائٹل سپانسر ایچ بی ایل ہو گا۔ پاکستان سپر لیگ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مزید دو نئی ٹیموں کا اضافہ سرمایہ کاروں کے لیے بہترین موقع ہو گا۔ لیکن ملتان سلطانز کے مالک علی ترین اور پی سی بی کے درمیان محاذ آرائی کے باعث ماہرین اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بی بی سی نے فرنچائز مالکان، پی ایس ایل کی بنیاد رکھنے والے افراد اور کرکٹ ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا سرمایہ کار حالیہ نتازع کے تناظر میں اب بھی اس لیگ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لیں گے۔ ہم نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ 10 سال بعد پاکستان سپر لیگ معیار کے حوالے سے دُنیا کی دیگر لیگز کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔ جبکہ ریونیو شیئرنگ فارمولے سمیت دیگر متنازع اُمور پر فرنچائز کا کیا موقف رہا ہے اور مستقبل میں فرنچائز کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ Getty Images’پہلے چھ فرنچائز ٹیموں اور برینڈ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے‘بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پی ایس ایل میں نئی ٹیمیں شامل کرنے کے بجائے چھ ٹیموں کے ساتھ ہی اس لیگ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سے سرمایہ کار نئی ٹیمیں حاصل کرنے کے لیے بڈنگ میں حصہ لیں گے۔پاکستان سپر لیگ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر سلمان سرور بٹ نئی ٹیمیں شامل کرنے کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نئی ٹیمیں شامل کرنے کے بجائے پہلے اس برینڈ کو مزید بڑا اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سلمان سرور بٹ کا کہنا تھا کہ ’ہو یہ رہا ہے کہ پی ایس ایل کا نیا سیزن شروع ہونے سے چند روز قبل ہی اس کی تشہیر شروع کی جاتی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ سارا سال اس لیگ کو متحرک رکھا جائے۔ ‘ اُن کا کہنا تھا کہ ٹیم سپانسر شپ، پی ایس ایل کی مرکزی سپانسر شپ، براڈ کاسٹنگ اور ٹائٹل سپانسر شپ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے مثال دی کہ ’اس وقت 10 روپے چھ ٹیموں میں تقسیم ہو رہے ہیں اور اگر دو مزید ٹیمیں شامل ہو جاتی ہیں تو یہ رقم 12 روپے ہو جائے گی، جو آٹھ ٹیموں میں تقسیم ہو گی۔ لہذا اس سے فرنچائزز کے منافع میں کمی ہو گی اور وہ دباؤ میں آئیں گی۔‘سلمان سرور بٹ کہتے ہیں کہ ابھی دو سے تین سال اسی طرح چلنا چاہیے اور جب یہ برینڈ مزید مضبوط ہو جائے اور اتنا منافع بخش ہو کہ آٹھ ٹیموں کو بڑا حصہ ملے تو پھر ہی یہ بہتر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ نئے فرنچائز مالکان بھی یہ دیکھیں گے کہ اُنھیں اتنی بھاری سرمایہ کاری کے عوض کیا ملے گا۔پاکستان میں فائٹر پائلٹ بننے کا خواب مگر زمبابوے کی نمائندگی: سکندر رضا سمیت پانچ پاکستانی نژاد کرکٹرز کی کہانیاںقانونی نوٹس پھاڑنے کے بعد ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے ’رنجشیں دور کرنے کے لیے‘ محسن نقوی کو خط لکھ دیانعمان علی: سانگھڑ کا ’فاسٹ بولر‘ جو پاکستان کے سپن اٹیک کا ’اٹوٹ انگ‘ بن گیاہارمر کی سپن کے سامنے پاکستانی بلے باز بے بس، جنوبی افریقہ نے راولپنڈی ٹیسٹ جیت کر سیریز برابر کر دیفرنچائزز کا کیا موقف ہے؟بی بی سی نے دو نئی ٹیموں کے اضافے سے متعلق موقف جاننے کے لیے فرنچائزز سے رابطہ کیا۔ ایک فرنچائز کے عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ اُنھیں پی ایس ایل میں دو نئی ٹیمیں شامل کرنے سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ دو نئی ٹیمیں شامل ہونے کے بعد ریونیو شیئرنگ فارمولہ کیا ہو گا۔ موجودہ فرنچائزز کے ساتھ معاہدے میں کیا تبدیلیاں ہوں گی۔ عہدے دار کا کہنا تھا کہ اُنھیں پی ایس ایل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر کی نیوز کانفرنس کا ایک گھنٹے قبل پتا چلا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ پی ایس ایل انتظامیہ نئی ٹیموں کو شامل کرنے کے اعلان سے قبل باقی فرنچائزز کو اعتماد میں لیتی۔ عہدے دار کا کہنا تھا کہ میڈیا پر یہ خبریں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ شاید موجودہ فرنچائزز اگلے 10 سال کے حقوق حاصل نہیں کر سکیں گی۔ حالانکہ اُن کے بقول چھ میں سے پانچ ٹیموں نے گذشتہ برس دسمبر میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ وہ پی ایس ایل کے ساتھ اگلے 10 برس کے لیے معاہدہ کرنے کو بھی تیار ہیں۔ بی بی سی نے اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے پی ایس ایل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر سے رابطہ کیا، جنھوں نے اپنے وٹس ایپ پیغام میں مختصراً فرنچائز عہدے دار کے دعوؤں کو رد کیا ہے۔خیال رہے کہ دسمبر 2025 میں پی ایس ایل کی ٹیموں کے فرنچائز اونرشپ رائٹس کی 10 سالہ میعاد ختم ہو رہی ہے۔ موجودہ فرنچائز مالکان اپنی ٹیموں کے لیے دوبارہ بولی لگا سکتے ہیں۔لیکن ملتان سلطانز کے مالک علی ترین اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے درمیان حالیہ تنازعے کے باعث موجودہ ٹیموں کے پی سی بی کے ساتھ چلنے کے معاملے پر سوالات اُٹھ گئے تھے۔ علی ترین، پی ایس ایل کے معاملات میں سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں، جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اُنھیں قانونی نوٹس جاری کیا تھا جسے اُنھوں نے پھاڑ دیا تھا۔ ملتان سلطانز کے مطابق قانونی نوٹس میں علی ترین کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی دی گئی یعنی اگر علی ترین بلیک لسٹ ہو گئے تو وہ دوبارہ پی ایس ایل فرنچائز کے مالک نہیں بن سکیں گے۔’پی سی بی کو نئے فرنچائزز تلاش کرنے میں مشکل نہیں ہو گی‘سینئر سپورٹس جرنلسٹ عبد الماجد بھٹی کہتے ہیں کہ گو کہ پی ایس ایل میں 10 سال کے دوران متعدد تنازعات اور بدانتظامی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی برینڈ ویلیو میں اضافہ ہوا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’پی ایس ایل کی ٹائٹل سپانسر شپ میں پہلے سال سے لے کر اب تک 505 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ اس سے سپانسرز کو بھی فائدہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی اس سے بھرپور منافع کمایا ہے۔ ‘عبد الماجد بھٹی کہتے ہیں کہ ’پہلے سے موجود چھ ٹیموں کو پی سی بی سے شکایات ہو سکتی ہیں، لیکن اب جو نئی ٹیمیں شامل کی جا رہی ہیں، اُن کے مالکان کے لیے یہ بہترین موقع ہو گا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب بھی بہت سے سرمایہ کار ہیں جو کرکٹ میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں۔ لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو دو نئی فرنچائزز تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ ’ملتان سلطانز کے مالک نے تو کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن باقی فرنچائز مالکان بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں پی ایس ایل کے فنانشل ماڈل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ ان میں سے کتنے فرنچائز مالکان اگلے دس سال کے لیے پی سی بی کے ساتھ چلتے ہیں۔ اُن کے بقول خاص طور پر سب نظریں ملتان سلطانز پر ہوں گی کہ وہ نئی بڈنگ میں جاتے ہیں یا نہیں۔ ‘Getty Imagesپہلے کراچی کنگز پھر ملتان سلطانز سب سے مہنگی ٹیم پاکستان سپر لیگ کی ٹیموں کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے سنہ 2015 میں بولی کا اہتمام کیا۔ اس کے تحت فرنچائز مالکان کے ساتھ 10 سال کا معاہدہ کیا گیا۔ پہلی بولی میں اے آر وائی گروپ نے کراچی کنگز کے حقوق 26 لاکھ ڈالرز میں خریدے۔ لاہور قلندرز 25 لاکھ ڈالرز، پشاور زلمی 16 لاکھ ڈالرز، اسلام آباد یونائٹیڈ 15 لاکھ ڈالرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 11 لاکھ ڈالرز سالانہ فیس ادا کرتے رہے ہیں۔ ملتان سلطانز پی ایس ایل کے دوسرے سیزن میں شامل ہوئی اور ابتداً دبئی سے تعلق رکھنے والے گروپ شون گروپ نے 50 لاکھ ڈالرز کے عوض اس کے رائٹس حاصل کیے۔ لیکن پی ایس ایل انتظامیہ کے ساتھ اس کے اختلافات کے باعث یہ معاہدہ صرف ایک برس تک ہی چل سکا اور پھر ملتان سلطانز نے 63 لاکھ ڈالر سالانہ پر ملتان سلطانز کے فرنچائز حقوق حاصل کر لیے۔ Getty Imagesفرنچائز مالکان کے تحفظات اور خدشاتپی ایس ایل فرنچائز کو یہ گلہ رہا ہے کہ پی ایس ایل کا ماڈل فرنچائز سے زیادہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو فائدہ دیتا ہے۔ سنہ 2021 میں فرنچائز مالکان اور پی سی بی کے درمیان تنازع اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب چھ کی چھ فرنچائزز نے پی ایس ایل کو یک طرفہ ریونیو سٹرکچر قرار دیتے ہوئے عدالت سے رُجوع کر لیا۔ فرنچائز مالکان کا موقف تھا کہ ان کی مسلسل سرمایہ کاری اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے باوجود لیگ کا موجودہ فنانشل ماڈل پی سی بی کو زیادہ فائدہ دیتا ہے، جس سے ٹیموں کے مالکان کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے۔ اس معاملے پر پھر مذاکرات ہوئے اور اُس وقت پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیشن تشکیل دیا۔ ایک رُکنی پینل کی سفارشات پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کا نیا فنانشل ماڈل تشکیل دیا جس میں رینیو شیئرنگ میں فرنچائزز کے تحفظات دُور کیے۔ Getty Images10 سال بعد آج پی ایس ایل کہاں کھڑی ہے؟پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں بڑے ناموں کی عدم شمولیت کے معاملے پر بھی ہر سال بحث ہوتی رہتی ہے اور پاکستان میں ماہرین اور عوام اس کا موازنہ انڈین پریمیئر لیگ سے کرتے ہیں۔ سنہ 2017 میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایل میں آنے والے کھلاڑیوں کو ’ریلو کٹے اور پھٹیچر‘ کہا تھا جس پر اُنھیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعض کرکٹ ماہرین پی ایس ایل کو دُنیا کی دیگر لیگز کے مقابلے میں معیاری بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ عبدا الماجد بھٹی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سپر لیگ میں آئی پی ایل کے مقابلے میں بڑے نام نہیں آئے۔ اُن کے بقول آئی پی ایل میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو جتنا پیسہ ملتا ہے، پی ایس ایل میں اس سے کہیں کم رقم ملتی ہے۔ عبد الماجد بھٹی کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ایک نیا چیلنج ہو گا، کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے خراب تعلقات کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ افغان کرکٹرز بھی پی ایس ایل کا حصہ نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ لڑائی کے دوران مبینہ طور پر تین افغان کرکٹرز کی ہلاکت کے بعد افغانستان کرکٹ بورڈ نے نومبر میں پاکستان میں سہ فریقی سیریز کھیلنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ایسے میں افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان نے اپنی ایکس پروفائل سے لاہور قلندرز کا نام بھی نکال دیا تھا۔ راشد خان کئی برسوں سے لاہور قلندرز کا حصہ تھے۔ Getty Images’یہ پاکستان میں کھیلوں کا سب سے بڑا برینڈ ہے‘سلمان سرور بٹ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس ایل اس وقت پاکستان میں کھیلوں کا سب سے بڑا برینڈ بن گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ نے بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایسے موقع پر جب ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں، پی ایس ایل کے ذریعے انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ سلمان سرور کہتے ہیں کہ ’پی ایس ایل کے ذریعے ملک میں ٹیلنٹ پول میں بھی اضافہ ہوا اور یہاں اچھی کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز نے پاکستان کی ٹیم میں بھی جگہ بنائی۔ ‘ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’پاکستان ایک بڑی کرکٹ ٹیم ہے اور اسی طرح اس کی لیگ بھی بڑی ہونی چاہیے تھے۔ ‘اُن کے بقول گو کہ پی ایس ایل کا مقابلہ انڈین پریمیئر لیگ سے نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے دُنیا کی ٹاپ ٹو یا تھری لیگز میں شامل ہونا چاہیے تھا۔بڑے نام پی ایس ایل کا حصہ نہ بننے کے سوال پر سلمان سرور کا کہنا تھا کہ فرنچائز کو اُس طرح سے فائدہ نہیں ہوا جس کی اس عرصے کے دوران توقع تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں زیادہ سرمایہ نہیں لگا سکے۔ اُن کے بقول اس کے باوجود جو کھلاڑی انڈین پریمیئر لیگ میں نہیں کھیل پاتے تھے، ان کی دوسری ترجیح پاکستان سپر لیگ ہی ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ، فرنچائز مالکان کے تحفظات دُور کر لیتا ہے تو نئی ٹیموں کے اضافے کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل کی برینڈ ویلیو کو مزید بڑھانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کا نیا ٹی 20 سکواڈ: بابر اعظم اور نسیم شاہ کی ایک برس بعد واپسی، فخر زمان کو ڈراپ کرنے پر فینز کے سوالافغان کرکٹرز کی مبینہ ہلاکت پر آئی سی سی کی مذمت جسے پاکستان میں ’ہینڈ شیک تنازع‘ کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے’ٹیسٹ ٹوئنٹی‘: 80 اوورز کے میچ میں دو، دو اننگز، ’ایک دن کا ٹیسٹ میچ بھی کیسا ٹیسٹ ہو گا‘پاکستان کی تاریخکا ’سب سے عظیم‘ کرکٹر کون ہے؟