
Getty Imagesانتھونی البانیز کی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی ہےآسٹریلیا میں تین مئی کے الیکشن کے بارے میں انتھونی البانیز نے وہی وعدہ دہرایا تھا جو انھوں نے تین سال پہلے کیا تھا: 'اگر وہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم بنے تو 'کسی کو روکا نہیں جائے اور کوئی چھوٹے گا نہیں۔'جب سنہ 2022 میں البانیز وزیر اعظم بنے تھے تو کئی لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت ان کے غیر مقبول پیشرو سکاٹ موریسن کے عہدے سے ہٹنے پر لوگوں کو ان میں نئی امید کی کرن نظر آئی تھی۔ لوگوں کو توقع تھی کہ سیاسی عدم استحکام کم ہوگا اور ایسے قومی بحرانوں کا خاتمہ ہوگا جن کا سامنا کئی حکومتوں کو کرنا پڑا ہے۔البانیز نے ایک مقبول رہنما کے طور پر فضائی آلودگی روکنے، بین الاقوامی تعلقات میں استحکام لانے اور آسٹریلیا کی پالیسی میں اہم تبدیلیوں کی کوششیں شروع کر دی تھی۔ انھوں نے صحت کے شعبے میں بڑی فنڈنگ کی تھی اور ایک طرح سے علاج تقریبا تمام لوگوں کے لیے مفت کر دیا تھا۔مگر جب گذشتہ تین برس کے دوران انھیں عالمی معاشی بحران اور ان کی حکومت پر لوگوں کے عدم اطمینان کا سامنا کرنا پڑا تو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ البانیز شاید صدی کے واحد آسٹریلوی وزیر اعظم ہوں گے جنھیں محض ایک مدت مل سکی۔ رواں سال کے آغاز پر ان کی مقبولیت ریکارڈ کم سطح پر پہنچ گئی تھی۔ تاہم سنیچر کے الیکشن میں البانیز کی جماعت لیبر پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے اور اسے ایک حیرت انگیز واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔اگرچہ ووٹوں کی سرکاری گنتی ابھی کئی دنوں تک جاری رہے گی لیکن البانیز کی مرکزی بائیں بازو کی جماعت اپنی اکثریت میں ڈرامائی اضافہ کرتی نظر آ رہی ہے جبکہ قدامت پسند لبرل-نیشنل اتحاد کو ملک بھر میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس موقعے پر البانیز نے کہا: 'آج، آسٹریلوی عوام نے آسٹریلوی اقدار کو ووٹ دیا ہے، انصاف کو، امیدوں کو اور سب کے لیے مواقع کو ووٹ دیا ہے۔ مصیبت میں ہمت اور ضرورت مندوں کے ساتھ مہربانی کا مظاہرہ کرنے کی طاقت کے لیے ووٹ کیا ہے۔'اتحادی رہنما پیٹر ڈٹن نے اپنی اس نشست کو گنوا دیا ہے جس پر وہ گذشتہ 24 سال سے جیت حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کی شکست کی 'مکمل ذمہ داری' قبول کی اور اپنے اراکین پارلیمنٹ سے معافی مانگی ہے۔Getty Imagesالبانی غربت میں بچپن گزارنے کو اپنے ترقی پسند تصورات کی بنیاد قرار دیتے ہیںانتھونی البانیز کون ہیں؟61 سالہ البانیز کی والدہ سنگل پیرنٹ تھیں اور ان کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جسے معذوری کے لیے پنشن ملتی تھی۔ وہ بار بار لوگوں کو یہ یاد دلاتے ہیں۔انھیں بچپن میں لگتا تھا کہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے والد وفات پا چکے ہیں۔ مگر جب وہ بڑے ہوئے تو انھیں پتا چلا کہ ان کی والدہ ایک شادی شدہ شخص کے ساتھ تھیں اور ان کے والد ابھی زندہ ہیں۔تین دہائیوں بعد انھوں نے اپنے والد کارلو البانیز کا پتا لگایا اور پہلی بار ان سے ملنے اٹلی پہنچے۔البانیز کہتے ہیں کہ غربت میں ان کی پرورش نے ان کی سیاست کو متاثر کیا ہے۔ وہ 20 سال کی عمر سے لیبر پارٹی کا حصہ ہیں۔ 1996 کے دوران اپنی 33ویں یوم پیدائش کے موقع پر وہ اندرون سڈنی سے الیکشن جیتے تھے۔وہ آسٹریلیا کے سب سے زیادہ عرصے سے خدمات انجام دینے والے رکن پارلیمان میں سے ایک ہیں۔ کچھ لوگ البانیز کو 'محنت کش طبقے کے ہیرو' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں مفت صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے محافظ، ایل جی بی ٹی برادری کے وکیل، رگبی لیگ کے پرجوش پرستار کے طور پر مشہور ہیں۔سنہ 2007 میں جب لیبر پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو البانیز سینیئر وزیر بنے اور اس کے بعد سے وہ ایک بااثر شخصیت رہے ہیں۔اس دوران پارٹی ہنگامہ خیز دور سے گزری۔ پہلے جولیا گیلارڈ کے لیے وزیر اعظم کیون رڈ کو معزول کیا گیا اور پھر انھیں واپس بحال کیا گيا۔البانیز کو لیبر پارٹی کے بائیں دھڑے کی ایک سرکردہ آوازکے طور پر جانا جاتا ہے۔ سنہ 2019 میں پارٹی کا کمان سنبھالنے کے ان کا جھکاؤ سینٹر کی طرف ہے۔انھوں نے کہا کہاپنے بیٹے ناتھن کے لیے ایک بہتر دنیا کی تخلیق نے سرگرم رکھے ہوئے ہے۔ انھوں نے سنہ 2019 میں 19 سال بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور رواں سال کے آخر میں اپنی منگیتر جوڈی ہیڈن سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔دنیا میں جہاں تارکین وطن کے خلاف جذبات بڑھ رہے ہیں وہیں البانیز کو تارکین وطن کے ساتھ ہمدردی کے جذبے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پاکستانی نژاد کرکٹر عثمان خواجہ نے ان کی جیت پر اپنے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کی ہے جس میں انہوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔عثمان خواجہ نے البانیز کی تصویر ڈال کر لکھا: 'توازن بحال ہو گیا۔ جس کا نام نہیں لیا جاتا ہے اسے شکست ہوئی ہے۔ انھوں نے ساری زندگی بس تارکین وطن پر الزام لگائے اور لوگوں کو تقسیم کیا۔ لیکن عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ہم امریکہ نہیں ہیں، آپ ہمیں نہ ڈرا سکتے ہیں اور نہ ہی بیوقوف بنا سکتے۔ ہم ایک ہیں اور ہم آزاد ہیں۔'Getty Imagesالبانیز کا کہنا ہے کہ انھیں جو ووٹ ملا ہے وہ برابری اور رحمدلی کے لیے ڈالا جانے والا ووٹ ہےبطور وزیر اعظم البانیز کا ٹریک ریکارڈالبانی کو جب سنہ 2022 میں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا تو اس کے ساتھ ہی لبرل-نیشنل اتحاد کی ایک دہائی کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔وہ وبائی مرض کووڈ کے بعد معیشت کو زندہ کرنے، آسٹریلیا کو عالمی تعلقات کے 'ناٹی کارنر' سے ہٹانے، زندگی گزارنے کی قیمت کم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں آئے۔ ان میں سب سے اہم مقامی لوگوں کے حقوق پر ریفرنڈم کرانے کا ان کا وعدہ تھا۔انھوں نے اپنی آمد کے ساتھ فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اپنے کردار نبھانے کے لیے اقدام کیے کیونکہ اس وقت رائے دہندگان اور بین الاقوامی برادری کے لیے آب و ہوا ایک اہم تشویش تھی۔ان کی حکومت نے فوری طور پر کاربن کے اخراج میں کمی کا قانون متعارف کرایا اور ملک کے سب سے بڑے آلودگی پھیلانے والوں کے لیے ایک نیم کاربن کیپ متعارف کرائی لیکن تیل اور گیس کے منصوبوں کو جاری رہنے دیا۔ تاہم جب موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بات آتی ہے تو ماہرین کے نزدیک حکومت کے پاس اب بھی بہت کچھ کرنے کے لیے ہے۔البانیز نے امریکہ جیسے اپنے حلیف ممالک سے الگ راہ اختیار کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کیا، وحشیانہ محصولات کے سلسلے کے خاتمے کے لیے بات چیت کی اور برسوں میں پہلی اعلیٰ سطحی میٹنگز کیں۔انھوں نے فرانس کے ساتھ بھی مفاہمت کی راہ نکالی کیونکہ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم نے فرانس کے ساتھ کئی بلین ڈالر کے آبدوز کے معاہدے کی منسوخی کردی تھی۔ آسٹریلیا نے بحرالکاہل کے ممالک کو یقین دلایا کہ وہ اپنے موسمیاتی تبدیلی کے خدشات کو سنجیدگی سے لے گا۔کووڈ کے بعد اگرچہ آسٹریلیا کی معیشت میں تیزی آئی تھی لیکن یہ اپنی سست رفتار ترقی پر سنہ 1990 کی دہائی سے قائم ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے برابر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔آسٹریلیا کی سٹوڈنٹ ویزا پالیسی میں وہ تبدیلیاں جن سے پاکستانی طلبہ متاثر ہو رہے ہیں’معمول‘ کی مشق یا ’امریکہ کو پیغام‘: چار دہائیوں بعد بین الاقوامی سمندری حدود میں چین کا میزائل تجربہ غیرمعمولی کیوں ہے؟’ڈگری کے مطابق نوکری ڈھونڈیں ورنہ واپس جائیں‘: آسٹریلیا کی نئی پالیسی جو بین الاقوامی طلبہ کی مشکلات میں اضافہ کرے گی ٹرمپ کے عالمی ٹیرف منصوبے پر امریکی سٹاک مارکیٹ میں مندی، برطانیہ میں جوابی اقدام پر غورمہنگائی پر اگرچہ قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے اور بہت سے گھروں کو گزر بسر میں دقت کا سامنا ہے۔ اگرچہ ٹیکس میں چھوٹ، توانائی میں چھوٹ اور کرایوں کے لیے تعاون جیسے اقدام کیے گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ بہت سے خاندانوں کے لیے ناکافی ہے اور ان کے لیے حالیہ انخابات میں مہنگائی ہی سب سے اہم مسئلہ تھا۔آسٹریلیا میں ہاؤسنگ بھی ایک مسئلہ رہا ہے۔ گھروں کی قیمت میں اضافے، سرکار کی جانب سے گھروں کی تعمیر میں کٹوتی، اور گھر کے کرایوں میں اضافے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لیے منساب رہائش کا انتظام مشکل ہو گیا ہے۔البانیز کی پہلی حکومت نے کم اور معتدل آمدنی والے افراد کو اپنے گھر خریدنے یا زیادہ سستے کرایہ پر گھر فراہم کرنے کی سکیمیں متعارف کروائیں۔ انھوں نے سماجی رہائش کو فروغ دینے کی کوشش کی اور اگلے پانچ سالوں میں 12 لاکھ مکانات کی تعمیر کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا۔Getty Imagesسامون کے وزیر اعظمافیوگا فیامے ناومی جیسے بحر الکاہل کے بہت سے رہنما آسٹریلیا سے موسمیاتی تبدیلی کے لیے زیادہ کی توقع رکھتے ہیںالبانیز کو کس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا؟اگرچہ انھیں اپنے پیشرو سکاٹ موریسن کے مقابلے میں بہت کم سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن گذشتہ سال انھیں کلف ٹاپ ہاؤس کی خریداری پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عوام کے ساتھ پارٹی کے اراکین نے بھی اس خریداری کی مذمت کی تھی۔لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے دور کا سب سے بڑا دھچکا اکتوبر سنہ 2023 کا ’دی وائس ریفرنڈم‘ تھا، جس کے تحت مقامی اور آبنائے ٹورس جزیرے کے لوگوں کو آئین میں تسلیم کرنے اور ان کے لیے ایک پارلیمانی مشاورتی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔یہ البانیز کے لیے بڑا دھچکہ تھا کیونکہ کئی مہینوں کی زہریلی اور تفرقہ انگیز قومی بحث کے بعد اسے بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا گیا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مہم کی قیادت البانیز کی حکومت نے نہیں کی تھی لیکن اسے ان کی بھرپور حمایت حاصل تھی وہ اس تجویز کی موثر طریقے سے وضاحت کرنے میں ناکام رہی۔وزیراعظم البانیو کو اسرائیل-غزہ جنگ پر درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوشش میں بھی دشواری کا سامنا رہا۔ پہلے تو البانیز حکومت نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی۔ پھر جوں جوں غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اس نے مستقل جنگ بندی کے مطالبات کی حمایت کرنی شروع کر دی۔ اس نے اسرائیل کو تحمل سے کام لینے کے لیے کہا اور حماس کی شکست کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کا اعادہ کیا۔کنزویٹوز نے البانیز پر اسرائیل کو چھوڑنے کا الزام لگایا اور اس کی حکومت کو آسٹریلیا میں سام دشمن حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں نے ان کے دفتر کے باہر ڈیرے ڈالے اور ان پر الزام لگایا کہ انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی سابقہ حمایت سے رو گردانی کی ہے۔ٹرمپ کے عالمی ٹیرف منصوبے پر امریکی سٹاک مارکیٹ میں مندی، برطانیہ میں جوابی اقدام پر غور’معمول‘ کی مشق یا ’امریکہ کو پیغام‘: چار دہائیوں بعد بین الاقوامی سمندری حدود میں چین کا میزائل تجربہ غیرمعمولی کیوں ہے؟چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟چند ممالک اب بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے حق میں کیوں نہیں؟آسٹریلیا میں ماں کے ’ناقابل برداشت دباؤ‘ پر کرائی گئی شادی اور بیٹی کے قتل کی کہانی