
حالیہ پاک بھارت فضائی جھڑپ، جس میں پاکستان کے چینی ساختہ لڑاکا طیاروں اور بھارت کے فرانسیسی رافیل جیٹ کے درمیان آمنے سامنے مقابلہ ہوا، عالمی عسکری ماہرین کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، پاکستان کے ایک چینی ساختہ لڑاکا طیارے نے کم از کم دو بھارتی فوجی طیارے مار گرائے ہیں۔ یہ واقعہ پاکستان اور چین کی مشترکہ ٹیکنالوجی کے جدید ترین جنگی طیاروں کی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل تصور کیا جا رہا ہے۔
حقیقی جنگی حالات میں جدید ہتھیاروں کی آزمائش
اس جھڑپ نے دنیا بھر کی افواج پائلٹس کو موقع فراہم کیا ہے کہ جنگی طیاروں اور ایئر ٹو ایئر میزائلوں کی کارکردگی کو براہ راست جنگی ماحول میں جانچا جائے۔ چین اور امریکا سمیت کئی ممالک جو تائیوان یا انڈو پیسفک میں ممکنہ تنازعے کی تیاری کر رہے ہیں، اس جھڑپ کے نتائج میں خاص دلچسپی لے رہے ہیں۔
امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے J-10 سی لڑاکا طیارے استعمال کیے، جن سے بھارتی طیاروں پر PL-15 ایئر ٹو ایئر میزائل داغے گئے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا مرکز بھی پاک چین مشترکہ ٹیکنالوجی کے PL-15 میزائلوں اور یورپی میٹیور میزائلوں کی ممکنہ کارکردگی رہی، اگرچہ سرکاری طور پر ان ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق نہیں کی گئی۔
PL-15 بمقابلہ Meteor: جدید میزائلوں کا ٹکراؤ
عسکری ماہر ڈگلس بیری کا کہنا ہے کہ اگر واقعیپاک چین مشترکہ ٹیکنالوجی کے PL-15 میزائل اور یورپی میٹیور آمنے سامنے آئے، تو یہ دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں کے لئے ایک اہم ٹیسٹ کیس بن جائے گا۔
ایک دفاعی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہر نے بتایا کہ PL-15 میزائل کی کارکردگی امریکی عسکری اداروں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسی لیے امریکا نے حالیہ برسوں میں اپنے نئے AIM-260 میزائل کی تیاری تیز کر دی ہے تاکہ پاک چین مشترکہ ٹیکنالوجی کے PL-15 کے مقابلے میں اپنی برتری برقرار رکھ سکے۔
مغربی تجزیہ کاروں کی رائے اور خدشات
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ بھارتی طیاروں نے میٹیور میزائل ساتھ لے رکھے تھے یا نہیں، اور پائلٹس کو کس نوعیت کی تربیت حاصل تھی۔ ایک تجزیہ کار نے کہا کہ جنگی حالات میں ’دھند‘ ہمیشہ سچائی کو چھپا لیتی ہے، اس لیے حتمی نتائج نکالنا ابھی مشکل ہے۔
ایک مغربی دفاعی کمپنی کے نمائندے کے مطابق، میزائل کا جو پرزہ سوشل میڈیا پر نظر آیا، وہ ممکنہ طور پر ایک ایسا میزائل تھا جو نشانے سے چوک گیا۔ انہوں نے کہا کہ PL-15 کی اصل رینج کے حوالے سے اب بھی کئی سوالات موجود ہیں، اگرچہ اس کی صلاحیت ماضی کے اندازوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
چینی میزائل ٹیکنالوجی کا ارتقاء
PL-15 میزائل چین کی اس پیش رفت کا مظہر ہے جس کے تحت وہ سوویت یونین کی طرز کی پرانی ٹیکنالوجی سے نکل کر جدید خودمختار دفاعی صلاحیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس میزائل کی کارکردگی نے امریکا اور یورپ کو مجبور کیا کہ وہ اپنے دفاعی نظام کی از سر نو ترتیب دیں۔
یورپی ممالک میٹیور میزائل کے لیے ایک اپ گریڈڈ ورژن تیار کرنے پر غور کر رہے ہیں، جس میں نیا انجن اور جدید رہنمائی نظام شامل ہو سکتا ہے، مگر اب تک اس منصوبے میں خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔
پاکستان اور بھارت کی حالیہ فضائی جھڑپ نے نہ صرف خطے میں کشیدگی کو بڑھایا ہے بلکہ عالمی دفاعی ماہرین کے لیے ایک نئی بحث کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ کیا پاک چین مشترکہ ٹیکنالوجی کے میزائل واقعی مغربی ہتھیاروں سے بہتر ہو چکے ہیں؟ کیا PL-15 نے جنگی حالات میں وہ کارکردگی دکھائی جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا؟ ان سوالوں کے جوابات آنے والے دنوں میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے دفاعی فیصلوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔