
EPA-EFE/Shutterstockامریکی میڈیا کے مطابق حالیہ ایران اسرائیل تنازع کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا ایک اسرائیلی منصوبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی ’اچھا خیال نہیں ہے۔‘اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے ایران پر حالیہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات کو دور کرنا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تہران میں برسرِ اقتدار رجیم تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ایرانی عوام سے اپیل کی تھی وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس تناظر میں ہم دیکھیں گے کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کون ہیں اور ان کے پاس کتنی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ، آیت اللہ خامنہ ای کے خاندان کا ایران کی سیاست میں کیا کردار ہے۔آیت اللہ علی خامنہ ای 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ بننے والے دوسرے شخص ہیں۔ وہ 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ بہت سے نوجوان ایرانیوں نے ہمیشہ سے انھیں ہی اس کردار میں دیکھا ہے۔ وہ ایرانی ریاست کے طاقت کے مراکز میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ بطور رہبرِ اعلیٰ، خامنہ ای کو کسی بھی حکومتی معاملے میں ویٹو کی طاقت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ جس کو چاہیں، کسی بھی عوامی دفتر کے امیدوار کے طور پر چن سکتے ہیں۔ ریاست کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر ان چیف ہونے کے ناطے، وہ ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔Anadolu/Getty Imagesآیت اللہ خامنہ ای ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای 1939 میں ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد کے ایک مذہبی خاندان میں ہیدا ہوئے۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد ایک درمیانے درجے کے شیعہ عالم تھے۔ انھوں نے بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 11 برس کی عمر میں وہ ایک عالم کے طور پر اہل ہو گئے تھے۔ اپنے دور کے دیگر عالموں کی طرح، ان کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھی۔ بطور ایک بااثر خطیب، وہ شاہِ ایران کے نقادوں میں شامل ہو گئے۔ بالآخر 1979 کے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایران کے شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ خامنہ ای کئی برسوں تک روپوش رہے اور انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ شاہِ ایران کی خفیہ پولیس نے انھیں چھ مرتبہ گرفتار کیا اور انھیں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔1979 کے انقلاب کے ایک سال بعد، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے انھیں تہران میں جمعے کی نماز کا امام مقرر کر دیا۔ 1981 میں خامنہ ای صدر منتخب ہوئے جبکہ 1989 روح اللہ خمینی کی وفات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انھیں آیت اللہ خمینی کا جانشین مقرر کر دیا۔ قاسم سلیمانی: مزاحمت کے ایرانی اتحاد کے معمار جن کی ہلاکت نے ’اسرائیل کے گرد آتشیں گھیراؤ‘ کو ہلا کر رکھ دیا’مزاحمت کا محور‘: کیا شام میں ناکامی کے بعد ایران خود کو خطے میں دوبارہ مضبوط بنا سکے گا؟’پارٹی سِٹی‘ سے اسلامی جمہوریہ تک: ایران میں 45 برس قبل انقلاب برپا کرنے والے ’پرانے انقلابی‘ آج کیا سوچتے ہیں؟جب دوران پرواز آیت اللہ خمینی کو بتایا گیا کہ ایران کی فضائیہ طیارے کو مار گرانا چاہتی ہےخامنہ ای بہت کم ایران سے باہر جاتے ہیں۔ وہ مرکزی تہران میں واقع ایک کمپاؤنڈ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک سادہ زندگی گزارتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ باغبانی اور شاعری کے شوقین ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جوانی میں سگریٹ نوشی کرتے تھے جو کہ ایران کے مذہبی رہنما کے لیے ایک غیر معمولی بات ہے۔ 1980 کی دہائی میں ان پر ہونے والے ایک قاتلانہ حملے کے بعد سے خامنہ ای اپنا دایاں بازو استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔خامنہ ای کی اپنی اہلیہ منصوره خجسته باقرزاده سے چھ بچے ہیں جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔خامنہ ای خاندان شاذ و نادر ہی عوام یا میڈیا کے سامنے آتا ہے۔ خامنہ ای کے بچوں کی نجی زندگی کے بارے میں سرکاری اور مصدقہ اطلاعات بہت محدود ہیں۔ان کے بچوں میں ان کے دوسرے بیٹے مجتبیٰ اپنے اثر و رسوخ اور خامنہ ای کے قریبی حلقوں میں اپنے کردار کی وجہ سے سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کتنے طاقتور ہیں؟NurPhoto/Getty Imagesمجتبی خامنہ ای کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ایران کے سب سے بااثر افراد میں سے ایک ہیں۔مجتبیٰ نے تہران کے علاوی ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی سکول ہے جہاں روایتی طور پر ایران کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے بچے پڑھتے ہیں۔ ان کی شادی قدامت پسند شخصیت غلام علی حداد عادل کی بیٹی سے اس وقت ہوئی جب وہ عالم نہیں بنے تھے اور قم میں مذہبی تعلیم شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ مجتبیٰ نے 30 برس کی عمر میں قم کے مدرسے سے باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک ایران کے سیاسی حلقوں میں مجتبیٰ کا اثر و رسوخ کافی بڑھ گیا لیکن اس بارے میں میڈیا میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ سنہ 2004 میں مجتبیٰ پہلی مرتبہ اس وقت خبروں کی زینت بنے جب مہدی کروبی نامی صدارتی امیدوار نے آیت اللہ خامنہ ای کے نام کھلے خط میں ان پر پس پردہ احمدی نژاد کی حمایت کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا۔2010 کی دہائی سے انھیں ایران کے بااثر ترین شخصیات میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خامنہ ای انھیں اپنے جانشینی کے لیے موزوں ترین امیدوار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم، کچھ سرکاری ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں۔آیت اللہ کوئی بادشاہ نہیں جو اپنا تخت اپنے بیٹے کو سونپ سکیں۔ تاہم، مجتبیٰ آیت اللہ خانہ ای کے قریبی حلقوں بشمول رہبرِ اعلیٰ کے دفتر میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ رہبر اعلیٰ کا دفتر کئی معاملات میں آئینی اداروں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔خامنہ ای کے سب سے بڑے بیٹے مصطفیٰ خامنہ ای ہیں۔ ان کی اہلیہ قدامت پسند مذہبی رہنما عزیزالله خوشوقت کی بیٹی ہیں۔ مصطفیٰ اور مجتبیٰ نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران اگلے محاذوں پر خدمات سر انجام دی ہیں۔AFP/Getty Imagesمیثم خامنہ ای کے بیٹوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔علی خامنہ ای کے تیسرے بیٹے مسعود 1972 میں پیدا ہوئے۔ ان کی شادی قم کے مدرسے کے معلموں کی ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے عالم سید محسن خرازی کی بیٹی سے ہوئی۔ مسعود خامنہ ای سیاسی حلقوں سے دور رہتے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔وہ پہلے اس دفتر کے سربراہ تھے جو آیت اللہ خامنہ ای کے لیے ایک اہم پروپیگنڈہ مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دفتر ان کے والد کے کاموں کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ خامنہ ای کی سوانح حیات اور یادداشتیں مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی مسعود پر ہے۔خامنہ ای کے سب سے چھوٹے بیٹے میثم 1977 میں پیدا ہوئے اور اپنے باقی تینوں بھائیوں کی طرح وہ بھی عالم ہیں۔ان کی اہلیہ ایک بااثر تاجر محمود لولاچیان کی بیٹی ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ 1979 کے انقلاب سے قبل انقلابی مذہبی رہنماؤں کی مالی اعانت کیا کرتے تھے۔ میثم نے اپنے بڑے بھائی مسعود کے ساتھ اپنے والد کے کاموں کو محفوظ رکھنے کے ذمہ دار دفتر میں کام کیا ہے۔خامنہ کی بیٹیاں کون ہیں؟خامنہ ای کی بیٹیوں بشریٰ اور ہدیٰ کے بارے میں بہت محدود معلومات دستیاب ہیں۔ یہ دونوں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد پیدا ہوئی ہیں۔ 1980 میں پیدا ہونے والی بشریٰ کی شادی غلام حسین محمد محمدی گلپایگانی کے بیٹے محمد جاوید گلپایگانی سے ہوئی ہے۔ غلام حسین محمد محمدی خامنہ ای کے دفتر میں چیف آف سٹاف ہیں۔خامنہ ای کی سب سے چھوٹی اولاد ہدیٰ 1981 میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی مصباح الهدىٰ بغيری كان سے ہوئی ہے جو امام صادق یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ علی خامنہ ای: ایران کے رہبر اعلیٰ کا جانشین کون ہو گا؟ایران میں ’رہبرِ اعلیٰ‘ کا کردار آج بھی کتنا اہم ہے؟فضائی برتری، خفیہ ایجنٹ اور امریکی ہتھیار: اسرائیلی فوج ایران پر کیسے ’حاوی‘ ہوئی اور آگے کیا ہو گا؟’مزاحمت کا محور‘: کیا شام میں ناکامی کے بعد ایران خود کو خطے میں دوبارہ مضبوط بنا سکے گا؟اسرائیل، ایران اور تیل: آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو کیا ہو گا؟کیا ایران کے طاقتور سیاستدان اقتدار میں آ کر علما کی جگہ لے پائیں گے؟