
"میرے پاس نہ گھر ہے، نہ جسم سلامت، نہ وسائل… بس آپ کی مدد چاہیے، مذاق نہ اُڑائیں، اللہ سے ڈریں"
“ویڈیو اس لیے بنا رہا ہوں کیونکہ میرے حالات بہت خراب ہیں، میرے پاس گھر نہیں ہے، میرا گزارا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ مدد کیوں مانگ رہے ہو، جوان ہو، کماؤ اور مسائل سے باہر نکلو… لیکن آپ میری حالت تو دیکھیں، بغیر ٹانگ اور ایک ہاتھ کے میں کون سا کام کرسکتا ہوں؟ مجھ سے تو سیدھا کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔ پلیز مجھے یہاں فالو کریں تاکہ میں انفلوئنسر بن جاؤں اور یہاں سے کچھ کمائی کر سکوں۔ میری ویڈیو شیئر کریں، آتھارٹیز تک میری آواز پہنچانے میں مدد کریں تاکہ حکومت مجھے ایک گھر ہی دے دے، اور میرا مذاق نہ اُڑائیں… بہت تکلیف ہوتی ہے، اللہ سے ڈریں۔”
یہ کلمات کسی عام نوجوان کے نہیں، بلکہ پاکستان کے لیجنڈری کامیڈین ببو برال کے معذور بیٹے نبیل کے ہیں، جو آج تنہائی، بیماری اور معاشی بدحالی سے لڑتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
View this post on Instagram A post shared by Nabeel Baral (@nabeel_baral)
ببو برال، جنہوں نے تین دہائیوں تک اسٹیج پر قہقہوں کے چراغ روشن کیے، آج ان کا خاندان اندھیروں میں ڈوبا ہے۔ جس فنکار نے کروڑوں دلوں کو ہنسانا سکھایا، وہ خود خاموشی سے 2011 میں دنیا سے رخصت ہوگیا اور پیچھے رہ گئے زخم خوردہ لواحقین۔
نبیل کے مطابق وہ جسمانی طور پر مکمل معذور ہیں۔ ایک بازو حادثے میں کٹ چکا، دونوں ٹانگیں بری طرح جھلس چکی ہیں، اور چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں۔ اپنے والد کے نام کے باوجود، ریاستی سرپرستی سے محروم نبیل نہ کسی پنشن کے حقدار ٹھہرے، نہ حکومتی امداد کے۔
نبیل کی فریاد اس نظام پر سوالیہ نشان ہے جو فنکاروں کو تو داد دیتا ہے مگر ان کے خاندان کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے۔ اگر ببو برال آج بھی زندہ ہوتے تو کیا اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے؟
حکومت، میڈیا، اور عوام سب کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کے بعد ان کے اہلِ خانہ کو کتنا یاد رکھتے ہیں؟ اگر ہم نے انہیں صرف تالیاں دی ہیں، تو اب کچھ قدم ان کے وارثوں کے ساتھ بھی چلنا ہوگا۔