
انڈیا میں دلجیت دوسانجھ کے لیے آزمائش اور پاکستان میں کھڑکی توڑ نمائش۔۔۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں فلم ’سردار جی 3‘ کی جسے 27 جنوری کو انڈیا کے علاوہ بیرون ملک میں ریلیز کر دیا گیا ہے۔ کچھ دن قبل جب ’سردار جی 3‘ کا ٹریلر جاری ہوا تو انڈیا اور پاکستان کے سوشل میڈیا پر تبصروں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ انڈین فلم سٹار دلجیت دوسانجھ انڈیا میں صارفین کی کڑی تنقید نشانہ بنے۔ کسی نے انہیں ’غدار وطن‘ کہا تو کسی نے ’خالصتانی۔‘ یہاں تک کہ ان کے پاسپورٹ کو منسوخ کرنے اور مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔انڈین صارفین دلجیت دوسانجھ پر سیخ پا کیوں ہوئے، اس کی وجہ فلم کی کاسٹنگ تھی۔ فلم سردار جی 3 کے ٹریلر میں پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر نظر آئیں اور ان کی فلم میں شمولیت نے بہت سے انڈین صارفین کا پارہ ہائی کر دیا۔دراصل پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ہی طرف کے ناظرین کو یہ اُمید نہیں تھی کہ ہانیہ عامر اب اس فلم کا حصّہ ہوں گی بلکہ کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں کہ اس فلم کی دوبارہ شوٹنگ کی جائے گی تاہم فلم کے ٹریلر کے بعد یہ افواہیں دم توڑ گئیں۔فلم کی کہانی کیا ہے؟ہارر کامیڈی فلم سردار جی 3 میں دلجیت دوسانجھ ’جگی دا گھوسٹ ہنٹر‘ کا کردار نبھا رہے ہیں جن کے قبضے میں درجن سے زائد چڑیلیں ہیں۔ ان چڑیلوں میں سے ایک (نیرو باجوہ) ان کے دل کے قریب ہے جو انہیں پسند کرتی ہے۔ دلجیت ایک ’آئی ٹی‘ چڑیل کو اپنے شیشے کے جار میں بند کر کے گھر لاتے ہیں تو وہ انہیں بتاتی ہے کہ اگر انہیں بھوت پکڑنے کے اپنے کاروبار میں ترقی کرنی ہے تو سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا ہوگا۔ جیسے ہی ’آئی ٹی چڑیل‘ دلجیت کا ’جگی دا گھوسٹ ہنٹر‘ کے نام سے انسٹا گرام پر اکاؤنٹ بناتی ہے تو وہاں پہلے سے ہی اس نام کا اکاؤنٹ موجود ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جگی کا نام استعمال کر کے کوئی اور اپنا کاروبار چمکا رہا ہے۔ جگی اس شخص کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جو ان کا نام استعمال کر کے لوگوں کو بےوقوف بنا رہا ہے اور پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ تو کوئی ’میڈم‘ چلا رہی ہیں جن کے بارے میں ان کی اسسٹنٹ کا کہنا ہے کہ ’بلی اتنی جلدی کبوتر نہیں پکڑتی جتنی جلدی ہماری میڈم بھوت پکڑتی ہے۔‘ اور پھر ہوتی ہے ببلی گرل ہانیہ عامر کی انٹری۔۔۔ ایک دوسرے سے نوک جھوک کے بعد جگی اپنے نام سے اکاؤنٹ چلانے والی اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے، اور کیسے دونوں مل کر برطانیہ میں آسیب زدہ حویلی کا بھوت پکڑتے ہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو سینما گھر کا رُخ کرنا پڑے گا۔فلم کے گانے ’سوہنی لگدی‘ کو خاص پسند کیا جا رہا ہے جس میں ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کو رومانوی انداز میں دکھایا گیا ہے۔’سوہنی لگدی‘ کو دلجیت دوسانجھ نے گایا ہے اور اس میں ہانیہ عامر کو ساڑھی جبکہ دلجیت دوسانجھ کو روایتی پنجابی لباس میں دیکھا جاسکتا ہے۔’کشیدگی نہ ہوتی تو یہ فلم بہت دروازے کھولتی‘پاکستان کے فلم ساز علی سجاد شاہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالات اتنے کشیدہ نہ ہوتے تو یہ فلم بہت دروازے کھولتی۔ ’ہانیہ عامر کی فلم انڈیا میں بھی ٹرینڈ کرتی، دلجیت دوسانجھ بھی پاکستان آ پاتے تو ایک بہت بڑا راستہ کُھلتا۔‘اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دلجیت دوسانجھ بالی وڈ سے بڑا ہے اور وہ یہ بات کئی بار ثابت کر چکا ہے اور اب ایک بار پھر اس نے ثابت کر دیا ہے۔ دلجیت کا نقطہ نظر بہت واضح ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام نہ کرنے کی جو میرے ملک کی پالیسی ہے میں اس کا احترام کرتا ہوں۔ اگر میں نے اس فیصلے کے بعد اگر میں نے ہانیہ عامر کے ساتھ شوٹنگ کی ہوتی تو تب مجھے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا تھا، ہم نے فلم مکمل کر لی، پھر پہلگام کا واقعہ ہو گیا اور حالات کشیدہ ہو گئے تو یہ مطالبہ جائز نہیں۔‘فلم میں ہانیہ عامر کے کردار کے حوالے سے علی سجاد شاہ نے کہا کہ ہانیہ عامر پہلے سے ہی پاکستان کی نمبر ون سمجھی جانے والی اداکاراؤں میں سے ایک ہیں۔ اس فلم میں ان کا جتنا بڑا کردار ہے یہ بہت اچھی بات ہے۔ فواد خان اور ماہرہ خان کے علاوہ یہ ہماری تیسری اداکارہ ہیں جو انڈیا گئیں اور ایک لیڈ رول کیا۔ ان کا کردار پاور فل ہے وہ سائیڈ پر کھڑی دکھائی نہیں دے رہی ہیں، سپورٹنگ کریکٹر کے طور پر نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘علی سجاد شاہ نے بتایا کہ پچھلے برس بھی ان کی فلم ’جٹ اینڈ جولیٹ 3‘ آئی تھی اور اس فلم نے بھی پاکستان سے کچھ 25 کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا تو کہنے کا مطلب یہ کہ دلجیت کی فلمیں پاکستان میں دیکھی جاتی ہیں۔ اتنا بڑا آرٹسٹ جو سال میں صرف ایک فلم بناتا ہے اس کے لیے پاکستانیوں کو یہ فلم دیکھنی چاہیے اور اسے کامیاب ہونا چاہیے۔‘فلم ساز علی سجاد شاہ 16 فلمیں بنا چکے ہیں جن میں سے پانچ پنجابی زبان میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی مانے یا نہ مانے پنجابی سینما ایک بڑی چیز ہے۔ جو بزنس مین ہے یا سیٹھ جو پیسے لگاتا ہے فلم پروڈیوس کرتا ہے یا ڈسٹری بیوٹر ہے یا سینما مالکان ہیں، انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ فلم کی زبان کیا ہے۔ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں لوگ سراہ رہے ہیں تو سب ٹھیک ہے۔‘وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کوئی سینما پاکستانی آرٹسٹس اور پاکستانی فلم میکرز کو نیٹ فلیکس اور ایمازون تک لے جا سکتا ہے تو وہ پنجابی زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر کبھی ہمارا سینما کھڑا ہوگا تو پنجابی زبان کی بدولت ہی ہوگا فلم مولا جٹ اس بہت بڑی مثال ہے۔ اسی طرح فلم پنجاب نہیں جاؤں گی یہ بھی ایک شاندار کام تھا۔‘فلم ’سردار جی 3‘ میں مختلف مواقع پر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے جملوں کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے علی سجاد شاہ نے کہا کہ ’سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے۔ یہ 80 یا 90 کی دہائی نہیں ہے جب ایک پی ٹی وی ہے اور ایک ڈرامہ لگے گا آٹھ سے نو یا کسی نے اینٹینا لگا کر انڈین چینل دیکھ لیا، وی سی آر پر ہفتے میں ایک فلم آ رہی ہے تو اب تو ہمارے پاس چوائسز ہیں ہزاروں چینلز آ گئے ہین، یوٹیوب پر فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں، نیٹ فلیکس، ایمازون، ٹورنٹ بھرا پڑا ہے۔ تو اب ہمارے پاس دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آڈیئنس کو متوجہ کرنے کے لیے مقبول چیزوں کا سہارا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دو سال قبل ہماری ایک ہارر کامیڈی فلم بنای تھی جس کا نام رکھا تھا ’پیچھے تو دیکھو۔‘ چھوٹے بچے کا یہ جملہ سوشل میڈیا پر وائرل تھا۔ اسی طرح صبا قمر اور زاہد احمد کی ایک فلم کا نام ’گھبرانا نہیں ہے۔‘ اس وقت عمران خان کا یہ جملہ بہت مقبول ہو رہا تھا۔ تو اس طرح اس قسم کے مشہور جملوں کو شامل کرنے کا مقصد آڈینس کی توجہ لینا ہوتا ہے کیونکہ یہ جملے انہیں فوراً کلک کر جاتے ہیں۔‘فلم میکر علی سجاد کا مزید کہنا تھا کہ ’دلجیت دوسانجھ نے ہم سب پاکستانیوں کو دکھا دیا ہے کہ ہانیہ عامر کو اس نے کتنی عزت دی اب ہم نے انڈیا کو دکھانا ہے کہ ہم دلجیت کو اُس کے واضح موقف دینے اور سٹینڈ لینے کی وجہ سے کتنی عزت دے سکتے ہیں۔ اور یہ صرف اسی طرح ممکن ہے کہ ہم یا تو سوشل میڈیا پر ان کے لیے آواز آُٹھائیں یا ان کی فلم کو لازمی جا کر دیکھیں۔‘