
نیٹ فلکس کے مشہور سیریز ’سکویڈ گیمز‘ کا حال ہی میں تیسرا اور آخری سیزن منظر عام پر آیا ہے جس میں فلم بین کافی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اس سیریز کی کہانی بچوں کے چند کھیلوں کے گرد گھومتی ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ حصہ لیتے ہیں۔ان کھیلوں کے پراسرار اور خفیہ منتظمین کی جانب سے ایسے لوگوں کو چُنا جاتا ہے جو معاشی وجوہات کی بناہ پر اپنی زندگی کے حالات سے تنگ ہوتے ہیں یا پھر زندگی کے خاتمے کے درپے ہوتے ہیں۔شائقین کو یہ جان کر حیرت ہو سکتی ہے کہ سیریز کے مرکزی کردار سنگ گی ہن کی کہانی جنوبی کوریا کی مزدور تحریک کی ایک خونی اور دردناک حقیقت سے متاثر ہے جسے 2009 کی سانگیونگ موٹر کمپنی کی ہڑتال کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔اس سیریز کے خالق ہوانگ ڈونگ ہیوک نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ اس کہانی نے دنیا بھر میں اتنی پذیرائی کیوں اور کیسے حاصل کی؟ہوانگ ڈونگ ہیوک نے بتایا کہ انہوں نے اس دور کے اجتماعی احساسِ کو چھوا ہے جس کے باعث لوگ گی ہن کے دکھ میں اپنے حالات کی جھلک دیکھتے ہیں۔2009 میں چین کی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ایس اے آئی سی، جو اس وقت جنوبی کوریا کی سانگیونگ موٹر کمپنی کی سب سے بڑی حصہ دار تھی دیوالیہ ہو گئی۔اس کے بعد کمپنی نے بڑے پیمانے پر ملازمین کو نکالنے کا اعلان کیا جس میں پیونگ ٹیک پلانٹ سے تقریباً ایک ہزار ورکرز کی برطرفی بھی شامل تھی۔ان برطرفیوں کے خلاف ورکرز نے 77 دنوں تک طویل دھرنا دیا جو جنوبی کوریا کی حالیہ تاریخ کی سخت ترین مزدور جدوجہد میں سے ایک تھا۔یہ دھرنا پولیس کے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کے بعد ختم ہوا جس میں ربڑ کی گولیاں، بجلی کے جھٹکے دینے والے آلات کا استعمال اور پانی کی فراہمی بند کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق کئی مزدوروں نے روزگار سے ہاتھ دھوئے اور آنے والے سالوں میں 40 سے زائد مزدور یا ان کے خاندان کے افراد غربت اور سماجی بے دخلی کے باعث جاں بحق ہوئے جن میں سے کئی ایک نے خودکشی کی تھی۔رپورٹس کے مطابق ہوانگ نے براہ راست ان واقعات کو سیریز میں شامل کیا ہے۔’سکویڈ گیمز‘ کے پہلے سیزن میں گی ہن کے ماضی کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک کار کمپنی میں کام کرتا تھا اور ایک پرتشدد مزدور ہڑتال کے بعد اپنی ملازمت کھو بیٹھا۔یہ منظر سانگیونگ کمپنی کی اصل کہانی کی طرف اشارہ ہے۔سیریز میں فرضی کمپنی کا نام ’ڈرَیگن موٹرز‘ رکھا گیا ہے, پانچویں قسط میں پولیس کی جانب سے ورکرز پر حملے کا منظر بھی دکھایا گیا ہے جو حقیقی زندگی کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔