
Getty Imagesصدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر حملے کا حکم دیااگست 1990 کو عراقی افواج نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر کویت پر حملہ کر دیا، جس سے مشرق وسطی میں اس بحران کا آغاز ہوا، جس کے بعد دوسری خلیجی جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔عراق کا حملہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ عراق اور کویت کے درمیان اس بحران کے پیچھے چند سیاسی اور اقتصادی عوامل چھپے تھے۔1988 میں ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد عراق قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، خاص طور پر ان خلیجی ریاستوں کے قرضوں میں جنھوں نے جنگ کے دوران اس کی مالی مدد کی تھی۔ ان ممالک میں کویت اور سعودی عرب سرفہرست تھے۔پھر کویت نے عراق سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔تاہم بحران ان عراقی الزامات کی وجہ سے مزید بڑھ گیا کہ کویت نے اپنے اوپیک (آرگنائزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹ ممالک) کے تیل کے کوٹے سے تجاوز کیا جس سے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے عراق کی آمدنی بھی کمی ہوئی۔عراق نے کویت پر مشترکہ رومیلا تیل فیلڈ سے تیل چوری کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اس کشیدہ ماحول کے درمیان صدام حسین نے کویت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔دو اگست سنہ 1990 کی صبح تقریباً ایک لاکھ عراقی فوجی ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹرکوں کے ساتھ کویت کی سرحد میں داخل ہوئے۔اس وقت عراق کی فوج دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوج تھی۔محض ایک گھنٹے میں ہی وہ کویت سٹی پہنچ گئے اور دوپہر تک عراقی ٹینکوں نے کویت کے شاہی محل دسمان محل کو محاصرے میں لے لیا۔اس وقت تک کویت کے امیر سعودی عرب فرار ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی شیخ فہد الاحمد الصباح کو اپنی جگہ چھوڑا تھا۔ عراقی فوج نے شیخ کو دیکھتے ہی گولی مار دی۔ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد علی حسن الماجد (صدام کے کزن) کو کویت کا فوجی گورنر مقرر کیا گیا۔عبوری حکومتعراقی حکام نے کویت میں اپنی موجودگی کو جواز دینے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنا شروع کر دیے۔ ایسا ہی ایک قدم ایک نئے سیاسی وجود کا قیام تھا جسے جمہوریہ کویت کا نام دیا گیا۔ملک پر قبضہ کرنے کے دو دن بعد، 4 اگست 1990 کو، صدام حسین نے جمہوریہ کویت کے قیام کا اعلان کیا۔ راجہ حسن مناوی کی کتاب ’کویت: حملہ اور آزادی‘ کے مطابق صدام حسین نے اعلان کیا کہ یہ نئی جمہوریہ ’آزاد اور مقبول انقلاب کے زیر انتظام ہے۔‘تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے مطابق یہ اعلان صدام حسین کی وقت خریدنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔پہلے دن سے فوری الحاق کا اعلان کرنے کے بجائے، عراقی حکومت نے صورت حال کو کویت میں ایک اندرونی انقلاب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی یعنی ان کے مطابق خود کویتیوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔اس وقت عراقی میڈیا نے حملے کا جواز فراہم کرنے کے لیے اسی بیانیے کا استعمال کیا۔ جمہوریہ کویت کی حکومت میں نو ایسے سابق کویتی افسران شامل تھے جنھوں نے عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا، یا بعد میں انھیں عراق سے تعاون کرنے والا قرار دیا گیا۔کرنل علاء حسین علی الخفاجی الجابر کو وزیر اعظم اور مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا، وہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ولید سعود محمد عبداللہ کو خارجہ امور کا وزیر، لیفٹیننٹ کرنل فواد حسین احمد کو وزیر خزانہ، میجر فاضل حیدر الوفیقی کو اطلاعات اور ٹرانسپورٹ کا وزیر اور لیفٹیننٹ کرنل حسین دہیمان الشمری کو سماجی امور کا وزیر مقرر کیا گیا۔صدام حسین کا کویت پر حملہ جسے صرف دھمکی سمجھا جا رہا تھا25 ملین ڈالر انعام اور ’بےوفا‘ باڈی گارڈ نے کیسے امریکی فوج کو صدام حسین کے زیر زمین خفیہ ٹھکانے تک پہنچایا؟’میں اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر مرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘: جب صدام حسین ہاتھ میں قرآن اٹھائے پھانسی گھاٹ کی جانب بڑھےحلبجہ بمباری: صدام حسین کا اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی گیسوں کا وہ حملہ جو عراق آج تک نہیں بھول پایاراجہ حسن مناوی کی کتاب ’کویت: حملہ اور آزادی‘ میں بتایا گیا ہے کہ علاء حسین 1948 میں کویت میں پیدا ہوئے تھے اور بغداد یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران عراق کی بعث پارٹی میں شامل ہوئے۔ وہ کویتی فوج کے سابق افسر تھے۔کویت کے سرکاری ٹیلی ویژن، جس پر عراقی افواج کا کنٹرول تھا، نے علاء حسین کا ایک ویڈیو بیان نشر کیا جس میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اور کویت کی عوام سے نئی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی گئی۔نئی حکومت نے انقلابی فیصلوں کا اعلان کیا، جیسے کہ مغربی کمپنیوں کو قومیانا، حکمران خاندان کے اثاثوں کو ضبط کرنا، کویتی قومی اسمبلی کی تحلیل، امارات کویت کو ایک جمہوریہ میں تبدیل کرنا اور اس وقت کویت میں مقیم تمام عرب شہریوں کو شہریت دینا شامل تھا۔’رسمی چہرہ‘اس حکومت کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں تھا اور یہ ایک رسمی چہرے سے کچھ زیادہ نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عراقی حکومت نے اسے بین الاقوامی دنیا کے سامنے کویت کے الحاق کے جواز کے لیے استعمال کیا۔کویتی عوام نے اس حکومت کو مسترد کر دیا، اور کویتی اپوزیشن نے بھی اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔Getty Imagesعلی حسن الماجد نے کویت کے گورنر کا عہدہ سنبھال لیایہ حکومت صرف چار دن چل سکی، کیونکہ صدام حسین نے 8 اگست 1990 کو کویت کے عراق کے ساتھ باضابطہ طور پر الحاق کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ عبوری حکومت نے ان سے یہ درخواست کی تھی، جس سے اس کا وجود قانونی اور عملی طور پر بے معنی ہو گیا تھا۔28 اگست 1990 کو، کویت گورنریٹ کو 19ویں عراقی صوبے کے طور پر قائم کرتے ہوئے ایک حکمنامہ جاری کیا گیا اور عزیز صالح النعمان کو کویت کا گورنر مقرر کیا گیا۔عبوری حکومت کی تحلیل کے بعد صدام حسین نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس میں علاء حسین علی کو عراق کا نائب وزیر اعظم مقرر کیا گیا اور بقیہ وزرا کو وزیر کے عہدے کے ساتھ ایوان صدر کا مشیر مقرر کیا۔اس طرح، کویت کا ایک صوبے کے طور پر عراق کے ساتھ الحاق کر دیا گیا، اور عراقی فوج نے پورے ملک میں عراقی قوانین کو نافذ کرنا شروع کر دیا، جس میں نصاب اور کرنسی کو تبدیل کرنا، اور کویتی اخبارات پر پابندی لگانا شامل تھا۔کویت میں غیر ملکی سفارت خانے بند کر دیے گئے اور بہت سے سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا گیا۔ مقامی آبادی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں، اور تشدد، گرفتاریوں اور پھانسیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ فوجی موجودگی ملک میں روزمرہ کی زندگی پر حاوی ہو گئی۔بہت سے مورخین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمہوریہ کویت کا اعلانایک سیاسی کھیل اور عراقی حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں تھا جس کا مقصد بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر وقت خریدنا تھا۔عراقی قیادت کو معلوم تھا کہ پہلے دن سے کویت کے براہ راست الحاق کا اعلان عالمی برادری کو مشتعل کرے گا، اس لیے اس نے اس معاملے کو ایک اندرونی عوامی انقلاب کے طور پر پیش کرنے کو ترجیح دی جس کے بعد عراق میں شمولیت کی درخواست کی گئی۔جنگ اور آزادیGetty Imagesفروری 1991 میں کویت کو مکمل طور پر آزاد کرایا جا چکا تھااقوام متحدہ نے کویت پر عراق کے حملے کی مذمت کی اور اسی سال 6 اگست کو عراق پر پابندیاں لگنا شروع ہوئیں۔سلامتی کونسل نے 29 نومبر کو قرارداد 678 پر ووٹ دیا جس میں عراق کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئی۔بحران کے حل کے لیے عرب کوششیں مکمل طور پر ناکام ہو گئیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عراقی صدر صدام حسین سے ملاقات کی، لیکن وہ انھیں انخلا کے حوالے سے مذاکرات پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے۔9 جنوری 1991 کو امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر اور ان کے عراقی ہم منصب طارق عزیز کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی ناکام رہی۔امریکی کانگریس نے 12 جنوری کو عراق کے خلاف جنگ شروع کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس کے بعد 34 ممالک کے بین الاقوامی اتحاد کی قیادت میں امریکہ نے کویت کو آزاد کرانے کے لیے فوجی مہم کا فیصلہ کیا۔ یہ مہم 16 جنوری 1991 کو ’آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘ کے نام سے شروع ہوئی۔اسی سال فروری میں، کویت کو مکمل طور پر آزاد کرایا جا چکا تھا، اور عراقی افواج تیل کے کنوؤں کو جلانے کے بعد پسپا ہو چکی تھیں۔14 مارچ 1991 کو کویت کے امیر شیخ جابر الاحمد الصباح اپنے ملک واپس آئے۔Getty Imagesکویت کی قانونی حکومت 14 مارچ 1991 کو آزادی کے بعد واپس آ گئیتلخ یادداشتکویت کی آزادی کے بعد، عراق نواز عبوری حکومت کے ارکان 27 اپریل 1991 کو، علاء حسین کے علاوہ، ملک واپس آئے اور واپسی پر فوراً خود کو کویتی حکام کے حوالے کر دیا۔انھیں کویتی سٹیٹ سیکیورٹی انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا، جس نے 15 مئی 1991 کو اپنی تحقیقات مکمل کیں۔9 ستمبر 1991 کو کویت کے اس وقت کے وزیر انصاف نے عبوری حکومت کی فائل کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور کہا کہ اس حکومت کے ارکان کو جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔راجہ حسن مناوی کی کتاب ’کویت: حملہ اور آزادی‘ کے مطابق بعد میں یہ افراد کویتی وزارت دفاع میں کام پر واپس آگئے۔علاء حسین علی، جنھوں نے اس حکومت کی سربراہی کی، 1998 میں عراق چھوڑ کر ترکی اور پھر ناروے چلے گئے اور 2000 میں کویت میں ان کے خلاف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا جس میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔علاء حسین علی نے ججوں کو بتایا کہ انھیں ایک کٹھ پتلی حکومت کی سربراہی پر مجبور کیا گیا جب عراقی حکام نے ان کے خاندان کو حراست میں لینے اور انھیں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ عراقیوں نے انھیں سینکڑوں جنگی قیدیوں میں سے کویت میں کٹھ پتلی حکومت کی سربراہی کے لیے کیوں منتخب کیا۔کویت نے گزشتہ ستمبر میں علاء حسین کی شہریت منسوخ کر دی تھی۔چار دن کی جمہوریہ کویت کی مختصر عمر کے باوجود اس کے نفسیاتی اور سیاسی اثرات کویتی شعور میں ایک تلخ یاد کے طور پر اب بھی موجود ہیں۔’میں اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر مرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘: جب صدام حسین ہاتھ میں قرآن اٹھائے پھانسی گھاٹ کی جانب بڑھے25 ملین ڈالر انعام اور ’بےوفا‘ باڈی گارڈ نے کیسے امریکی فوج کو صدام حسین کے زیر زمین خفیہ ٹھکانے تک پہنچایا؟حلبجہ بمباری: صدام حسین کا اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی گیسوں کا وہ حملہ جو عراق آج تک نہیں بھول پایاصدام حسین کا کویت پر حملہ جسے صرف دھمکی سمجھا جا رہا تھاصدام حسین کے ’24 لیٹر خون‘ سے لکھے گئے قرآن کے نسخے کا معمہبرٹش ایئرویز کی پرواز 149: جب صدام حسین نے مسافروں کو بطور ’انسانی ڈھال‘ استعمال کیا