’ڈراؤنی فلموں کا معمہ‘: خوفناک فلمیں آپ کی پریشانی کو کس طرح دور کرسکتی ہیں؟


خوف کے مارے اپنی جگہ سے اُچھل جانا اور سہم جانا بظاہر زیادہ پُرسکون محسوس نہیں ہوتا مگر ڈراؤنی فلمیں پریشانی کے لمحات میں آپ کو خوب اطمینان دلا سکتی ہیں۔جب میں تقریباً 16 برس کا تھا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ رات کو فلمیں دیکھنے سے بڑا لطف آئے گا۔مگر میں غلط ثابت ہوا۔ میرا ایک دوست ڈراؤنی مووی ’دی ایگزارسسٹ‘ کی اپنی ڈی وی ڈی لے آیا۔ میں نے اگلے دو گھنٹے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر گزارے۔ ہر بار جب میں اپنی نشست پر اچھلتا تو حیرت زدہ رہ جاتا کہ باقی لوگوں کے لیے اتنی ڈراؤنی چیزیں کیسے تفریح کا باعث بن سکتی ہیں۔ فلسفیوں اور ماہرین نفسیات نے بھی اسی سوال پر غور کیا ہے۔ منطق کی طرف دیکھا جائے تو پھر صاف مطلب تو یہی بنتا ہے کہ جو چیزیں ہمارے تحفظ کے لیے خطرے کا باعث بنتی ہیں ان سے دور رہا جائے۔ یہ بات ہمیں یا ہمارے پیاروں کو نقصان سے دور رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوف لڑائی یا فرار اختیار کرنے جیسا فیصلہ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ہالووین کی آمد آمد ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی فلموں کا انتخاب کریں گے جنھیں دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے. یہ چیز ہالی ووڈ کی ڈراؤنی فلموں کو بہت منافع بخش بنا دیتی ہیں۔آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی اور ٹورونٹو یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو مارک ملر کہتے ہیں ’ہارر یعنی ڈر سے لطف اندوز ہونے والی بات ایک بہت ہی پرانی پہیلی ہے۔‘یہاں تک کہ ارسطو نے بھی اس بارے میں بات کی کہ یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم خطرناک، مکروہ، نقصان دہ، خوفناک چیزوں سے بچنے اور فرار اختیار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پھر بھی ہم ایسی جگہوں پر جانے کے لیے کشش محسوس کرتے ہیں جہاں ہمارا گھناؤنی، خوفناک، نقصان دہ یا خوفناک چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے۔گذشتہ دس برسوں میں ماہرین نفسیات نے آخر کار اس معمہ کو حل کرنا شروع کردیا ہے۔ کچھ شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ خوفناک کہانیاں دماغ کے اہم حصے کو متحرک کرتی ہیں جس سے ہمیں غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ تازہ ترین نتائج سے پتا چلتا ہے کہ دہشت کی یہ افسانوی کہانیاں کچھنفسیاتی فوائد کا بھی باعث بن سکتی ہیں، جن کے ذریعے ہم حقیقی دنیا میں محسوس ہونے والی پریشانیوں کو کم کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں پریشانیوں سے ایک طرح سے دور لے جاتی ہیں۔ Getty Imagesمتضاد ترجیحاتایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہر نفسیات اور مصنف کولٹن سکریونر نے اس شعبے میں زیادہ تحقیق کی ہے۔ بچپن میں وہ ہمیشہ خوفناک کہانیوں کی سنسنی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ تاہم جب وہ گریجویٹ سکول پہنچے تو انھیں انسانی ثقافتوں میں خوفناک کہانیوں کی ہمہ گیریت کے بارے میں پریشانی لاحق ہوئی۔کولٹن سکریونر کہتے ہیں ’ہمارے پاس پہلے تحریری ثبوت میں خوفناک شیطان اور خوفناک درندوں کی کہانیاں ہیں۔‘’ڈراؤنی کہانیوں کی خصوصیات زبان کی طرح پرانی ہیں۔‘ایک وضاحت یہ بھی دی جاتی ہے کہ ’ڈراؤنی‘ کہانیاں ایک قسم کے کھیل کے طور پر کام کرتی ہیں، جو ہمیں اپنے آس پاس کی دنیا کو سمجھنے اور ان خطرات کے لیے تیار رکھتی ہے جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کولٹن سکریونر کہتے ہیں کہ ’انسانوں سمیت کسی بھی جانور کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے خطرات کو سمجھ سکیں اور اس کے بارے میں جانیں۔‘ہم اس کی جڑیں دوسری مخلوق میں دیکھ سکتے ہیں: مثال کے طور پر ہرن جو بھاگنے سے قبل ایک فاصلے سے شکاریوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کولٹن سکرینر کا کہنا ہے کہ ’اس کی وجوہات یہ ہیں کہ انسان سب سے زیادہ متجسس مخلوق نظر آتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کہانیاں تخلیق کرنے، منتقل کرنے اور استعمال کرنے کی یہ ناقابل یقین صلاحیت ہے۔‘ایک تحقیق کے دوران میں انھوں نے ایک آن لائن سوالنامے کو حل کرنے کے لیے تقریباً 400 آن لائن شرکا کو شامل کیا۔ اس سوالنامے کے نتیجے میں آنے والے جوابات کچھ اس طرح کے تھے:• مجھے وہ احساسات پسند ہیں جو ’ہارر‘ فلمیں دیکھنے سے مجھے ملتے ہیں• میں ایک ’ہارر‘ فلم کے دوران اتنا خوفزدہ ہو گیا تھا کہ میں گھر جانے یا بعد میں اپنے گھر میں چلنے سے ڈرتا تھا• مجھے ’اذیت دینے والی فلمیں‘ دیکھنا پسند ہے کیونکہ مجھے تجسس ہے کہ اذیت واقعی کیسی ہوگینتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے کولٹن سکرینر نے دیکھا کہ شرکا کو تین اہم گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلا گروپ ’ایڈرینالائن جنکیز‘ کا ہے جو یہ تجسس خود جسمانی طور پر ایڈونچر کر کے حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے خوف کی وجہ سے زیادہ فعال رہتے ہیں۔ Getty Imagesدوسرا گروپ ’وائٹ نکلرز‘ یعنی بے حد خوفزدہ لوگ۔ وہ اس تناؤ کو ناپسند کرتے ہیں جو ’ہارر‘ فلمیں پیدا کرتی ہیں۔ سکریونر نے وضاحت کی کہ ’ضروری نہیں کہ وہ خوف کے احساس سے لطف اندوز ہوں، لیکن وہ اپنے خوف پر فتح حاصل کرنے کے احساس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس عمل نے انھیں اپنے بارے میں کچھ خاص سیکھنے میں مدد کی ہے۔‘تیسرا گروپ ’ڈارک کوپرز‘ کا ہے، جو اسے حقیقی زندگی سے نمٹنے کے ایک طریقہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ انھوں نے یہ جاننے کے لیے ’ہارر‘ فلمیں دیکھنا شروع کیں کہ دنیا کتنی پرتشدد ہے اور اپنے آپ کو یہ یاد دلانے کے لیے کہ سکرین پر ڈر اور خوف کے مقابلے میں ان کی اپنی زندگی کتنی محفوظ ہے۔یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے سکرین پر ’ایکشن‘ کو اپنی پریشانی یا افسردگی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ ان کا بہادری کو جانچنے کا ایک طریقہ تھا۔کولٹن سکریونر کا کہنا ہے کہ ’آپ کے پاس پریشان کن تجسس سے محظوظ ہونے کے لیے متعدد راستے ہوسکتے ہیں۔‘بہتر نقالیمارک ملر کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران فلسفی، نیورو سائنس دان اور ماہر نفسیات اس خیال پر متفق ہیں کہ دماغ ہمارے ارد گرد کی دنیا کی نقالی مستقل طور پر بنا رہا ہے۔’یہ ایک متوقع انجن ہے‘۔ ’جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ہمارا دماغ نئے واقعات کی ترجمانی کرنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ’پیش گوئی پروسیسنگ‘ کا استعمال کرتا ہے کیونکہ وہ واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ہمارے ردعمل کی مناسب منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔‘یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم غیر یقینی سے بھری دنیا سے کس طرح لچکدار طریقے سے نمٹتے ہیں۔ہوش اڑا دینے والی ڈراؤنی فلمیں، جن پر پابندی عائد کی گئیپاکستان میں ریڈیو کا تاجر بالی وڈ میں ڈراؤنی فلموں کا برانڈ کیسے بنا؟ایک نایاب بیماری جس میں ہر قسم کا ڈر ختم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہوائی جہاز سے کودنے میں بھی خوف نہیں آتاانسان نما شعور، ’سپر ہیومن‘ مشینیں اور روبوٹ: مصنوعی ذہانت سے جڑا خوف ’فکشن‘ یا حقیقت؟مارک ملر کا کہنا ہے کہ ’آپ ہمیشہ اپنی پیش گوئی کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں تاکہ آپ طویل عرصے میں غیر یقینی کی کسی بی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے تیزی سے بہتر طور پر تیار ہوجائیں۔‘کولٹن سکریونر کی طرح ان کا خیال ہے کہ یہ پریشان کن واقعات پر تناؤ کے ردعمل کو اعتدال میں لا کر اضطراب کو کم کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔مارک ملر کہتے ہیں کہ ’ہارر‘ کہانیاں خوفزدہ کرنے کے علاوہ نفرت اور دباؤ سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم خوف زدہ کرنے والی فلمیں دیکھنے کے دوران اکثر پاپ کارن کھا رہے ہوتے ہیں یا کمرے کو چھوڑ کر باہر نکل جاتے ہیں، یہ خوف سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہی تو ہے۔علاج کا خوفکولٹن سکریونر تجویز کرتے ہیں کہ ڈراؤنی کہانیوں کو نفسیاتی تھراپی میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا سکھایا جاسکے۔صحیح کتاب یا فلم کو دیکھتے ہوئے ہم اپنے خوف کو خوشگوار ’عنوانات‘ کی ایک مزیدار جگہ میں کام کرنا سکھا سکتے ہیں اور ان سے ہمیں وہ مہارت حاصل ہو سکتی ہے جو ہمیں روزمرہ کی زندگی کے تناؤ سے بہتر طور پر نمٹنے میں مدد فراہم کرے گی۔وہ بتاتے ہیں کہ نیدرلینڈز میں محققین نے مائنڈ لائٹ نامی ویڈیو گیم کا استعمال کرتے ہوئے پریشانی کے شکار بچوں کے علاج کے لیے اسی طرح کے اصول کا استعمال کیا ہے۔ یہ کھیل ایک ’آسیب زدہ گھر‘ میں ترتیب دیا گیا ہے جس میں چیختی ہوئی بلائیں کھلاڑیوں کا تعاقب کرتی ہیں۔تاہم بچے اپنے دماغ کی سرگرمی کا جائزہ لینے کے لیے ’ای ای جی‘ ہیڈسیٹ پہنتے ہیں، جو کہ براہ راست ان کے دماغ میں جنم لینے والی تبدیلیوں کو ایک روشنی کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔اگر بچے بلاؤں کے حملے کے دوران آرام دہ اور پرسکون حالت کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو بلا ایک خوبصورت بلی کے بچے میں بدل جاتی ہے جو گھر کے ارد گرد ان کا پیچھا کرتی ہے۔ اگر دوسری طرف بچے بہت خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو ان کے سامنے ایک پیغام ظاہر ہوتا ہے جو آگے بڑھنے سے پہلے ان کے دماغ کو پرسکون کرنے کے طریقے تجویز کرتا ہے۔جو بچے باقاعدگی سے گیم کھیلتے ہیں وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں کم اضطراب کا شکار نظر آتے ہیں۔ سکریونر کہتے ہیں کہ ’یہ ناقابل یقین ہے کیونکہ یہ بچوں میں اضطراب کے علاج کے لیے بہترین ہے۔‘اور انھیں ایسا لگتا ہے کہ باقاعدگی سے ’ہارر‘ کہانیاں یا ناول پڑھنا یا پھر فلمیں دیکھنا اسی مقصد کو پورا کر سکتی ہیں۔جیسا کہ وہ اس موضوع پر ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ ’ہارر تفریحی مواد لوگوں کو ایک محفوظ، کنٹرول شدہ ماحول میں خوف کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘ہوش اڑا دینے والی ڈراؤنی فلمیں، جن پر پابندی عائد کی گئیپاکستان میں ریڈیو کا تاجر بالی وڈ میں ڈراؤنی فلموں کا برانڈ کیسے بنا؟ایک نایاب بیماری جس میں ہر قسم کا ڈر ختم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہوائی جہاز سے کودنے میں بھی خوف نہیں آتاانسان نما شعور، ’سپر ہیومن‘ مشینیں اور روبوٹ: مصنوعی ذہانت سے جڑا خوف ’فکشن‘ یا حقیقت؟ بے چینی آپ کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟آٹھ سال تک مفلوج رہنے کے بعد ایک چپ کی مدد سے لوگوں کے دماغ پڑھنے والا نوجوان: ’اب مسئلہ رازداری کا ہے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید آرٹ اور انٹرٹینمنٹ

’ڈراؤنی فلموں کا معمہ‘: خوفناک فلمیں آپ کی پریشانی کو کس طرح دور کرسکتی ہیں؟

شوبز کی اداکاروں کی شادیاں کیوں ٹوٹ جاتی ہیں.. حارث وحید نے چبھتے ہوئے سوال کا کیا جواب دیا؟

یہ لوگ کسی چیز کی عزت کرنا نہیں جانتے۔۔ کومل میر کی لہک لہک کر قومی ترانہ پڑھتے ویڈیو وائرل ! صارفین نے آڑے ہاتھوں لے لیا

ڈرامے میں استاد نے شاگرد کے لئے رشتہ کیوں بھیجا۔۔ فیمنسٹس کی تنقید پر خلیل الرحمان قمر الٹا برس پڑے، کیا کچھ سنا دیا؟

کسی اور کو پسند کرتا تھا لیکن ایمان.. برطانیہ میں کس نے حملہ کیا؟ رجب بٹ کے نئے انکشافات

’ریڈ 2‘ سے ’سٹولن‘ 2025 کی وہ کامیاب فلمیں جو آئیں اور چھا گئیں

’ریڈ 2‘ سے ’سٹولن‘ تک، بالی وُڈ کی فلمیں جو 2025 میں شائقین کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہیں

بیٹی جیسی بہن کی موت نے کیا سبق دیا؟ یتیمی اور کینسر کی جنگ ! ونیزہ احمد نے پہلی بار زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ اٹھا دیا

ماں ہونے کے ناطے بہت خوش ہوں کہ.. نادیہ خان کی ڈکی بھائی پر کڑی تنقید ! کیا کچھ کہہ دیا؟

مرد ڈائپر بدلنے کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں.. بیٹی کے سالوں بعد بیٹے کی پیدائش ! محب مرزا نے باپ ہونے کی کیا ذمہ داریاں گنوا دیں؟

معروف اداکار ستیش شاہ چل بسے.. اچانک موت کس وجہ سے ہوئی؟

پہلے شوہر 15 سال بڑے تھے اور اب۔۔ ڈاکٹر نبیحہ منگیتر سے متعلق بات کرتے ہوئے اچانک کس پر بھڑک اٹھیں؟ کھری کھری سنا دیں

مناڈے، ایک ایسا گلوکار جس کے سُروں نے وقت کو مات دے دی

راتوں رات امیر! 100 ملین درہم کی لاٹری جیتنے والا کون ہے؟

ملیکا شراوت: بالی وڈ کی ’بولڈ‘ اداکارہ جنہوں نے ’ٹیبوز‘ پر کُھل کر بات کی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی