
بھارتی ریاست اترپردیش کی سب ڈویژنل مجسٹریٹ جیوتی موریہ ایک بار پھر تنازع کا مرکز بن گئی ہیں، جہاں ان کے شوہر آلوک موریہ نے اب الہٰ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں بیوی سے مالی معاونت دی جائے۔
یہ تنازع کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر اس وقت شدید زیرِ بحث آیا جب ’جیوتی موریہ بے وفا ہے‘ کا ہیش ٹیگ بھارت بھر میں ٹرینڈ بننے لگا۔ لوگوں نے ذاتی رشتوں پر سوشل میڈیا عدالتیں لگا دیں، اور اب قانونی جنگ نے اس معاملے کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
آلوک موریہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی جیوتی کی تعلیم اور کیریئر میں بھرپور مدد کی۔ 2015 میں جب جیوتی نے 16ویں رینک کے ساتھ یوپی پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا، تو وہ افسر بن گئیں اور پھر ان کے رویے میں مکمل تبدیلی آ گئی۔ آلوک کے مطابق، جیوتی نے نہ صرف تعلق توڑ دیا بلکہ ایک اور افسر، ہوم گارڈ کمانڈنٹ منیش دوبے سے قریبی روابط بھی قائم کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دونوں کو ہوٹل سے نکلتے ہوئے خود دیکھا، اور اب انہیں اپنی جان کے تحفظ کا بھی خدشہ ہے۔
انہوں نے دھومنگنج تھانے میں باقاعدہ شکایت درج کروائی ہے اور ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ جیوتی اور منیش نے ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی ہے۔ آلوک کے پاس واٹس ایپ چیٹس اور دیگر شواہد بھی موجود ہیں جنہیں وہ عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب جیوتی نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آلوک نے شادی سے قبل اپنی اصل شناخت چھپائی، اور خود کو گرام پنچایت افسر ظاہر کیا، حالانکہ وہ صفائی کے عملے سے وابستہ تھے۔ جیوتی کے والد نے بھی اس مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے آلوک کے خاندان کو "غیر ایماندار" قرار دیا۔
جیوتی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو چیٹس منظرعام پر لائی گئیں، وہ ایڈیٹ کی گئی ہیں اور انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی درخواست بھی دی ہے۔
اس ذاتی جھگڑے نے سوشل میڈیا پر کافی توجہ حاصل کی ہے۔ نہ صرف طنزیہ پوسٹس اور تبصرے دیکھنے میں آئے بلکہ ’بے وفا ایس ڈی ایم‘ جیسے القابات بھی ٹرینڈ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اس کہانی پر ایک بھوجپوری گانا بھی ریلیز کیا گیا جس میں جیوتی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جیوتی نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرفہ بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت کئی زاویوں پر مشتمل ہے۔
یہ تنازع اب صرف گھریلو سطح کا نہیں رہا بلکہ قانونی، سماجی اور عوامی رائے کی پیچیدہ لڑائی بن چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں عدالت کی کارروائیاں اور مزید حقائق ہی یہ طے کریں گے کہ اصل سچ کیا ہے۔