
BBCکچھ افراد جعلی پاسپورٹس پر پورے یورپ کی مختلف لائبریریوں میں داخل ہوئے، وہاں سے نایاب نسخے حاصل کیے اور انھیں نقول سے بدل دیااپریل 2022 میں ایسٹونیا کی یونیورسٹی آف ٹارٹو کی لائبریری میں دو افراد داخل ہوئے اور وہاں موجود عملے سے آٹھ انتہائی نایاب کتابیں دکھانے کی درخواست کی۔ یہ کتابیں 19ویں صدی کے دو عظیم ادیبوں، روسی شاعر و ڈرامہ نگار الیگزینڈر پُشکن اور یوکرینی نژاد روسی ادیب نکولائی گوگول، کی تھیں۔دونوں افراد روسی زبان بول رہے تھے اور انھوں نے لائبریری کے عملے کو بتایا کہ اُن میں سے ایک شخص دراصل امریکہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے تحقیق کر رہا ہے اور اسی سلسلے میں انھیں یہ کتابیں پڑھنی ہیں۔تین ماہ بعد عملے کو معلوم ہوا کہ اُن دو افراد نے جو کتابیں لائبریری سے مستعار لی تھیں اُن میں سے دو کتابیں جعلی نقول سے بدل دی گئی ہیں۔ گھبراہٹ کی حالت میں لائبریری کے ملازمین نے باقی چھ کتابوں کی بھی باریک بینی سے جانچ کی۔ حیرت انگیز طور پر وہ سب بھی اصل کتابوں کی نہایت مہارت سے تیار کی گئی نقول نکلیں، جن پر لائبریری کی مہر اور اندراجی نمبر تک موجود تھے۔ٹارٹو لائبریری اس واردات کی اکیلی شکار نہیں بنی تھیں۔ چند ہی ہفتوں بعد دارالحکومت ٹالن کی یونیورسٹی لائبریری سے بھی دس نایاب کتابیں غائب کر دی گئیں۔ان ابتدائی وارداتوں کے بعد اگلے 18 ماہ کے دوران روسی کلاسیکی ادب اور روسی زبان میں لکھی گئی نایاب کتابوں کی چوری کا یہ سلسلہ پورے یورپ کی لائبریریوں تک پھیل گیا۔ یہ وارداتیں بالٹک اور فن لینڈ سے لے کر سوئٹزرلینڈ اور فرانس تک ہونے لگیں۔ کہیں اصلی کتابوں کو نقول سے بدلا گیا اور کہیں وہ مکمل طور پر ہی غائب کر دی گئیں۔اس معاملے پر قابو پانے کے لیے یورپی یونین کی ایجنسی برائے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول نے ’آپریشن پُشکن‘ کے نام سے اپنی تحقیقات شروع کیں۔ اس آپریشن کے دوران مختلف ممالک میں پولیس اہلکاروں نے کئی مقامات پر چھاپے مارے۔اب تک نو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور یہ سب کے سب جارجیا کے شہری ہیں۔BBCتسیرے کیدزے کا قانون کے ساتھ پہلا ٹکراؤ 2016 میں ہوا جب انھیں جارجیا کے تبلیسی ہسٹری میوزیم سے نایاب کتابیں چوری کرنے پر سزا سنائی گئی’کتابوں کا جادوگر‘سب سے پہلے جس شخص کو گرفتار کیا گیا وہ بیکا کیدزے تھے، جن کی عمر 48 برس ہے۔ ان پر ایک ہی وقت میں دو ملکوں، لٹویا اور ایسٹونیا، میں تین جرائم کا مقدمہ چلایا گیا اور انھیں قصوروار پایا گیا۔ان جرائم میں ٹارٹو اور ٹالِن کی لائبریریوں سے نایاب کتابوں کی چوری بھی شامل تھی۔اس وقت بیکا کیدزے ایسٹونیا میں تین سال اور تین ماہ کی سزا کاٹ رہے ہیں اور جس جیل میں وہ قید ہیں وہاں قیدیوں کو صحافیوں سے گفتگو کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔جیل سے بات کرتے ہوئے بیکا کیدزے نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سنہ 2008 میں نایاب کتابوں کے کاروبار یعنی انھیں خریدنے، بحال کرنے اور دوبارہ بیچنے کے کام کا آغاز کیا تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکیں۔ 1.7 ارب روپے کے ٹوائلٹ کی چوری میں تین افراد کو سزائیں لیکن ٹوائلٹ پھر بھی برآمد نہ کیا جا سکاگرفتاری سے بچنے کے لیے چور نے 14 کروڑ روپے کی بالیاں نِگل لیں 6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتاانڈیا کی ’ڈاکو حسینہ‘: کروڑوں کی ڈکیتی کی ماسٹر مائنڈ جو راتوں رات امیر ہونا چاہتی تھیجب بیکا کیدزے سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کتابوں کو بحال کرنے کی کوئی باضابطہ تعلیم حاصل کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سب کچھ عملی تجربے سے سیکھا ہے۔انھوں نے کہا: ’میں کتابوں کا جادوگر ہوں۔ کسی کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی قیمت کتنی ہے اور نیلامی میں اس کے کتنے دام لگ سکتے ہیں۔‘بیکا کیدزے کا قانون کے ساتھ پہلا ٹکراؤ سنہ 2016 میں ہوا جب انھیں جارجیا کے تبلیسی ہسٹری میوزیم سے نایاب کتابیں چوری کرنے پر سزا سنائی گئی۔ اُس وقت انھوں نے جرم قبول کیا تھا اور عدالت نے ان کی سزا معطل کر دی تھی۔BBCتقریباً ایک سال کے اندر مجموعی طور پر 73 نایاب کتابیں جن کی مالیت تقریباً چھ لاکھ ڈالر تھی، لائبریری سے چوری ہو گئیں’دوسری عالمی عظیم کے بعد کی سب سے بڑی چوری‘اکتوبر 2023 میں ایک نوجوان جوڑا وارسا یونیورسٹی کی لائبریری کے ریڈنگ روم میں بیٹھا تھا: نوجوان مرد نے سیاہ بیس بال کیپ پہنی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ایک سرخ بالوں والی خاتون تھیں۔ وہ پرانی کتابیں کھنگال رہے ہیں اور اس دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب وہ مرد اپنی ساتھی کے گال پر بوسہ دیتا ہے۔یہ سب کچھ لائبریری کی نگرانی والے کیمرے میں محفوظ ہو گیا۔ یہ نوجوان مرد بیکا کیدزے کا بیٹا، میٹ تھا اور خاتون میٹ کی بیوی آنا گوگولادزے۔ بعد میں دونوں کو تقریباً ایک لاکھ ڈالر مالیت کی کتابیں چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی۔یونیورسٹی کے پاس سویت دور سے پہلے اور بعد کی کتابوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے۔ یہ اشاعتیں 1944 میں وارسا میں ہونے والی بغاوت (جب لائبریری کی عمارت جل گئی تھی) کے دوران بھی محفوظ رہ گئیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیئرونیم گرالا نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم وہ نسل ہیں جو اچھی طرح جانتی تھی کہ کسی نے کبھی یہ کتابیں ہمارے لیے بچائی تھیں۔‘تقریباً ایک سال کے اندر مجموعی طور پر 73 نایاب کتابیں جن کی مالیت تقریباً چھ لاکھ ڈالر تھی، لائبریری سے چوری ہو گئی۔ ان میں سے کچھ ملزمان آج تک پکڑے نہیں جا سکے۔پروفیسر گرالا نے میڈیا کو بتایا: ’یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی چوری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی تاج سے جواہرات نکال دیے جائیں۔‘BBCماہرین کے مطابق بنیادی طور پر مہر کی مدد سے یہ شناخت کی جا سکتی ہے کہ کوئی کتاب چوری ہوئی ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔لائبریری کے عملے کو فوری طور پر کتابوں کے بدلنے کا پتہ نہیں چلا۔ پروفیسر ہیئرونیم گرالا نے بی بی سی کو بتایا: ’کتاب پر کوڈ موجود ہے، شیلف میں اسی سائز کی کتاب موجود ہے اورکوئی خالی جگہ نہیں ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چور جو ابتدا میں یہاں آئے، وہ مخصوص کتابوں کے لیے آئے تھے اور اچھی طرح تیاری کر کے آئے تھے۔ بظاہر انھوں نے اعلیٰ معیار کی نقول تیار کی تھیں۔‘پروفیسر گرالا نے یہ بھی نشاندہی کی کہ لائبریری کی حالیہ اصلاحات (خاص طور پر نایاب اور پرانی کتابوں کے کم نگرانی والے استعمال کی اجازت) چوریوں کے اضافے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ اصلاحات اصل میں قارئین کے لیے کتابوں کی رسائی کو زیادہ آسان بنانے کے لیے متعارف کروائی گئی تھیں۔’چھوٹی سی مہر‘روایتی طور پر دنیا بھر کی تمام لائبریریاں کتابوں پر مہر لگاتی ہیں۔ مہر کا سائز ملک اور لائبریری کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ نایاب کتابوں کے ماہر اور مجموعہ نگار پیوٹر ڈروژنین کے مطابق روس میں کتابوں پر ’بہت مضبوط سی مہر‘ لگانے کی روایت ہے۔ماہرین کے مطابق بنیادی طور پر مہر کی مدد سے یہ شناخت کی جا سکتی ہے کہ کوئی کتاب چوری ہوئی ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات لائبریریاں اضافی کاپیوں کو فروخت کر دیتی ہیں جیسا کہ سویت دور میں جگہ کی کمی کی وجہ سے ہوتا تھا۔اور ایسا تب بھی ہو سکتا ہے جب لائبریری کو بند یا تحلیل کر دیا گیا ہو جیسا کہ پیریستروئیکا کے دوران کئی لائبریریوں کے ساتھ ہوا۔ڈروژنین کے مطابق 19ویں صدی یا اس سے پہلے کی کتابوں کی اصل مہر کی شناخت کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں ’اگر مہر 18ویں یا 19ویں صدی کی ہے تو ہمیں نہیں معلوم کہ کتاب کے ساتھ کیا ہوا۔ ہاں یہ کاپی لائبریری سے آئی ہے لیکن یہ کیسے باہر نکلی، کوئی نہیں جانتا۔‘مہر کو کیمیائی طور پر ہٹایا جا سکتا ہے یا کتاب کے پرانے صفحات کو نئے صفحات سے بدل کر پرانے کاغذ پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تبدیلیاں صرف ماہرین یا مجموعہ نگار ہی دیکھ پاتے ہیں۔شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ لائبریری کی کوئی پرانی کتاب مہر سے خالی ہو اور اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ وہ لائبریری کے مجموعے میں اس وقت آئی ہو جب تمام کتابوں پر مہر لگانے کی روایت شروع نہیں ہوئی تھی۔BBCڈروژنین کے مطابق مہنگی کتابوں کے خریدار اس خریداری کو ایک وطن پرستی کے عمل کے طور پر دیکھتے تھےکتابوں کی غیر معمولی قیمتیںکیدزے نے ایسٹونیا کی جیل سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’آدھا کلو سونا جس کی قیمت 60 ہزار ڈالر ہے، اس کی حفاظت کے لیے تو 22 مسلح افراد تعینات کیے جاتے ہیں مگر یورپ کی کسی لائبریری میں دو کتابیں جن کی قیمت بھی 60 ہزار ڈالر ہے، ان کی حفاظت پر ایک چھوٹے سے قد کی بزرگ خاتون کو رکھا جاتا ہے اور اکثر وہاں ویڈیو نگرانی بھی نہیں ہوتی۔‘یہاں سوال یہ ہے کہ ان کتابوں کی یہ غیر معمولی قیمتیں کون لگا رہا ہے، خاص طور پر 19ویں صدی کی روسی کلاسیکی کتابیں حالیہ برسوں میں مسلسل مہنگی کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟سنہ 2022 سے 2024 کے دوران جب یورپ میں چوریوں کا یہ سلسلہ اپنے عروج پر تھا اس وقت نایاب کتابوں کے ماہر ڈروژنین نے مارکیٹ میں روسی نایاب کتابوں میں اضافے کی نشاندہی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہرین کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ’جو فروخت ہو رہا ہے یہ کوئی نجی مجموعہ نہیں ہے۔‘ڈروژنین کے مطابق مہنگی کتابوں کے خریدار اس خریداری کو ایک وطن پرستی کے عمل کے طور پر دیکھتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ’یہ تاریخی لمحہ تھا کہ اہم کتابیں اپنے اصل وطن واپس آ رہی تھیں۔‘وہ ایک اور جارجیائی شہری مکھائل زمٹارادزے کی مثال دیتے ہیں جنھیں جون میں لیتھوآنیا کی ویلنس یونیورسٹی لائبریری سے قیمتی کتابیں چوری اور فروخت کرنے کے جرم میں سزا ہوئی۔زمٹارادزے نے لائبریری میں جعلی دستاویزات کی بنیاد پر رجسٹریشن کروائی اور 17 نایاب ایڈیشنز منگوائے جن میں سے زیادہ تر پر مہر موجود تھی۔ انھوں نے 12 کتابیں نقول سے بدل دی اور پانچ کتابیں باہر لے جا کر واپس نہیں کیں۔ چوری شدہ کتابوں کی کل مالیت تقریباً سات لاکھ ڈالر تھی۔زمٹارادزے نے عدالت میں بتایا کہ انھوں نے کتابیں ماسکو سے آرڈر پر چوری کیں اور انھیں بس کے ذریعے بیلاروس بھیجا، جس کے عوض انھیں دس ہزار ڈالر کی کرپٹو کرنسی ملی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں نقول اور جعلی دستاویزات بھی ماسکو سے بھیجی گئی تھیں۔انھوں نے بتایا کہ ان کا گاہک ماسکو کے ایک نیلامی ہاؤس کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔BBCاگر وارسا یونیورسٹی لائبریری کی تاریخی مہر اور تاریخی کوڈ موجود ہے تو اسے بذاتِ خود ایک نوادرات سمجھا جاتا ہےیہ پہلا موقع نہیں ہے کہ نیلامی ہاؤسز کی تحقیقات ہوئی ہوں۔ پروفیسر ہیئرونیم گرالا کے مطابق وارسا یونیورسٹی لائبریری کی کم از کم چار کتابیں 2022 کے آخر اور 2023 میں ماسکو کے نیلامی ہاؤس ’لٹ فنڈ‘ میں فروخت ہو چکی ہیں۔پروفیسر گرالا نے بی بی سی کے ساتھ نیلامی ویب سائٹ کے سکرین شاٹس شیئر کیے ہیں جن میں مشتبہ کتابیں دکھائی گئی ہیں جو بظاہر لائبریری کے مجموعے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں ایک کتاب پشکن کی ’دی ٹیلز آف ایوان بیلکن‘ تھی جس کی 19ویں صدی کی مہر تصاویر میں واضح نظر آ رہی تھی۔ اسی نیلامی میں پشکن کی نظمیں چار جلدوں پر مشتمل ایک سیٹ بھی شامل تھیں جس کی تصاویر پر وارسا یونیورسٹی کی مہر دیکھی جا سکتی تھی جو اب ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں۔نیلامی ہاؤس کے ڈائریکٹر سرگئی برمیستروف نے کہا کہ یہ نیلامی روسی فیڈریشن کے قوانین کے دائرے میں ہوتی ہے اور فعال ریاستی لائبریریوں کی مہروں والی کتابیں فروخت کے لیے قبول نہیں کی جاتیں۔ برمیستروف نے مزید کہا کہ کتاب کے مالکان نیلامی ہاؤس کے ساتھ ایک معاہدہ کرتے ہیں جس میں قانونی حوالوں سے کتاب کی اصلیت کی تصدیق کی جاتی ہےاور ہر کتاب ماہر کی جانب سے جانچی جاتی ہے اور یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس پر فعال لائبریریوں کی کوئی مہر یا نشان نہ ہو۔قدیم مہروں کی موجودگی ہمیشہ شبہات کا سبب نہیں بنتی۔برمیستروف نے بی بی سی کو بتایا ’انقلاب کے بعد کے سالوں میں سلطنت روس کی لائبریریوں کی بہت سی کتابیں دنیا بھر میں پھیل گئی اور کئی ریاستی اور نجی مجموعوں میں شامل ہو گئیں، لہٰذا ایسی کتابیں جو نجی مجموعوں میں پہنچ گئیں تھیں اب وہ عالمی مارکیٹ میں آزادانہ بیچی جا رہی ہیں۔‘پروفیسر گرالا نے بی بی سی کو بتایا کہ قدیم مہروں کا معاملہ پیچیدہ ہے۔’اگر وارسا یونیورسٹی لائبریری کی تاریخی مہر اور تاریخی کوڈ موجود ہے تو اسے بذاتِ خود ایک نوادرات سمجھا جاتا ہے۔ کوئی نئی مہر یا نیا کوڈ نہیں لگایا جائے گا۔ یہ مہریں 200 سال سے چل رہی ہیں اور احترام کے باعث دوبارہ مہر نہیں لگائی جاتی۔‘آپریشن پشکن ابھی ختم نہیں ہوا۔ کم از کم ایک مشتبہ شخص فرانس میں لائبریریوں سے کتابیں چوری کرنے کے جرم میں مقدمے کا منتظر ہے۔ حکام کا ماننا ہے کہ بہت سے مجرم ابھی بھی فرار ہیں اور یورپ کی کچھ سب سے قیمتی کتابیں لاپتہ ہیں۔6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتا1.7 ارب روپے کے ٹوائلٹ کی چوری میں تین افراد کو سزائیں لیکن ٹوائلٹ پھر بھی برآمد نہ کیا جا سکاگرفتاری سے بچنے کے لیے چور نے 14 کروڑ روپے کی بالیاں نِگل لیں نیلے ہیرے کی چوری: سعودی عرب اور تھائی لینڈ کے سفارتی تعلقات تین دہائیوں بعد بحالانڈیا کی ’ڈاکو حسینہ‘: کروڑوں کی ڈکیتی کی ماسٹر مائنڈ جو راتوں رات امیر ہونا چاہتی تھی