
آسٹریلیا کے بونڈی بیچ میں فائرنگ کے واقعے کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر حملہ آور سے بندوق چھیننے والے شہری احمد الاحمد کے علاج کے لیے چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں ڈالر جمع ہو گئے ہیں۔
واقعے کی وائرل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 43 سالہ احمد الاحمد عقب سے ایک مسلح شخص کے قریب پہنچتے ہیں اور اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لیتے ہیں۔ یہ ویڈیو دنیا بھر کے میڈیا اداروں نے نشر کی جبکہ سوشل میڈیا پر اسے 22 ملین سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔
فوٹیج میں ایک اور شہری کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو غیر مسلح حملہ آور کی جانب دوڑتا ہے اور اس پر ایک چیز پھینکتا ہے جس کے بعد دونوں شہری ایک درخت کے پیچھے چھپ کر پناہ لیتے ہیں۔
احمد الاحمد کے والدین نے آسٹریلوی میڈیا کو بتایا کہ واقعے کے دوران ان کے بیٹے کے کندھے میں چار سے پانچ گولیاں لگیں جن میں سے کئی اب بھی اس کے جسم میں پیوست ہیں۔ ان کے مطابق احمد کی ایک سرجری کامیابی سے مکمل ہو چکی ہے جبکہ مزید دو یا تین سرجریاں متوقع ہیں۔
احمد کے والد محمد فاتح الاحمد اور والدہ نے بتایا کہ وہ چند ماہ قبل ہی شام سے سڈنی پہنچے تھے جبکہ ان کا بیٹا 2006 میں آسٹریلیا آیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اس سے جدا تھے۔ والدین کے مطابق احمد اپنے ایک دوست کے ساتھ بونڈی میں کافی پی رہے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ انہوں نے ایک حملہ آور کو درخت کے پیچھے چھپے دیکھا اور جب اس کی گولیاں ختم ہو گئیں تو احمد نے عقب سے جا کر اس سے اسلحہ چھین لیا۔
احمد الاحمد کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا کسی کی جان بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے چاہے اس کا تعلق یا مذہب کچھ بھی ہو۔ ان کے والد نے کہا کہ جب اس نے یہ قدم اٹھایا تو وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ وہ کن لوگوں کو بچا رہا ہے وہ قومیت یا مذہب میں فرق نہیں کرتا خاص طور پر آسٹریلیا میں جہاں تمام شہری برابر ہیں۔
احمد الاحمد کی جرات اور بہادری نے عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کے دوران احمد کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بے شمار جانیں بچائیں۔ معروف سرمایہ کار ولیم ایکمین نے احمد کے لیے قائم آن لائن فنڈ ریزر میں ایک لاکھ ڈالر عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ صرف 12 گھنٹوں میں اس فنڈ کے ذریعے 5 لاکھ 50 ہزار ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔