
یوکرین کی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کا دعویٰ ہے کہ اس نے نوووروسیسک کی بندرگاہ پر ایک خصوصی آپریشن میں پہلی بار زیر آب ڈرون ’سب سی بیبی‘ کا استعمال کرتے ہوئے روسی آبدوز ’وارشویانکا‘ کو تباہ کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ روس کے لیے بڑا دھچکہ ہے تاہم روس نے سوموار کی شام ہونے والے اس نقصان کی تردید کی ہے۔ایس بی یو کا دعویٰ ہے کہ اس دھماکے کے نتیجے میں روسی آبدوز کو شدید نقصان پہنچا اور اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔آبدوز ’وارشاویانکا‘ پر ’کیلیبر‘ نامی کروز میزائل کے چار لانچر نصب تھے، جنھیں روس، یوکرین کی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔روس نے آخری بار یوکرین پر ان میزائلوں سے 13 دسمبر کی رات کو حملہ کیا تھا اور روسی فوج نے بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپیئن سے انھیں لانچ کیا تھا۔ یوکرینی فضائیہ کے مطابق ان میں سے نو کو مار گرایا گیا تھا۔تین ہفتے قبل یعنی 25 نومبر کی رات بھی روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئو پر درجنوں کیلیبر میزائل داغے تھے، جس میں سات افراد ہلاک اور ایک بچے سمیت 21 افراد زخمی ہوئے تھے۔ایس بی یو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نوووروسیسک میں اس آبدوز کی تباہی ایجنسی کے 13ویں ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری کاؤنٹر انٹیلیجنس اور یوکرین کی نیول فورسز کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں ہوئی۔روس نے ایس بی یو کے بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی حمایت کرنے والے روسی فوجی نمائندے یوری کوٹیونوک نے نوووروسیسک کی بندرگاہ سے آنے والی فوٹیج پر محتاط انداز میں تبصرہ کیا لیکن اس حملے کی تردید نہیں کی۔انھوں نے کہا کہ ’یہاں دو چیزوں میں سے ایک ہوئی: یا تو کیمرا ٹوٹ گیا یا فوٹیج جلدی سے ’ڈپلیکیٹ‘ ہوگئی۔ ایسا کس نے کیا؟ یہ ایک اور سوال ہے۔‘کچھ مقامی ٹیلی گرام چینلز نے جنگ کے حامی ایک روسی بلاگر یوری پوڈولیاک کا حوالہ دیا، جنھوں نے کہا کہ ڈرون ’پارکنگ ایریا کے قریب‘ پھٹا اور کشتیوں میں سے ایک کو پہنچنے والے نقصان کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔بحیرہ اسود میں موجود روس کے بحری بیڑے نے بعد میں آبدوز کو پہنچنے والے نقصان کی تردید کی اور کہا کہ یوکرینی حملے میں روسی عملے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔بحیرہ اسود میں موجود روس کے بحری بیڑے کی پریس سروس کے سربراہ الیکسی رولو کا حوالہ دیتے ہوئے انٹرفیکس روس نے کہا کہ ’نوورووسیسک میں تعینات بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کا کوئی بھی جہاز یا آبدوز اور عملہ اس تخریب کاری کے نتیجے میں زخمی نہیں ہوا اور وہ معمول کے مطابق ڈیوٹی پر ہیں۔‘الیکسی رولو نے مزید کہ کہ ’دشمن اپنے اہداف کو حاصل نہیں کر سکا۔‘ملٹری انفارمینٹ چینل کے مطابق اس سے قبل ہونے والے ایسے واقعات پر بحیرہ اسود میں تعینات روسی بحری بیڑے نے کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ایس بی یو کے مطابق روسی آبدوز ’وارشویانکا‘ کی قیمت تقریباً 400 ملین امریکی ڈالر ہے (امریکی نیول انسٹیٹیوٹ کے مطابق سنہ 2009 میں اس کی قیمت 300 سے 350 ملین ڈالر تھی)۔تاہم SBU کے مطابق بین الاقوامی پابندیوں کے پیش نظر اسی طرح کی آبدوز کی تعمیر پر فی الحال 500 ملین ڈالر تک لاگت آسکتی ہے۔یوکرینی بحریہ کے سابق ڈپٹی چیف آف سٹاف اینڈری رائزنکو نے بی بی سی کو بتایا کہ روس اس تباہ ہونے والی آبدوز کو جلد فعال نہیں کر پائے گا۔ان کے اندازے کے مطابق حملے کی ویڈیو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرینی حملے میں کئی سو کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔کئی برسوں کا فوجی تجربہ رکھنے والے فوجی مبصر کیریلو ڈینیلچینکو نے پیشگوئی کی ہے کہ اس جنگ کے اختتام تک ’وارشویانکا‘ کو ہٹا دیا جائے گا۔انھوں نے فیس بک پر لکھا کہ ’اینٹی سب میرین طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے نیٹ ورک کے ذریعے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنا، بارودی سرنگوں سے گزرنا اور نووروسیسک میں ’وارشویانکا‘ پر حملہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔‘انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک بلیک سی سٹڈیز کے سربراہ اور بلیک سی نیوز کے چیف ایڈیٹر اینڈری کلیمینکو کا خیال ہے کہ اس حملے کے بہت سے ’حیران کن نتائج‘ ہوں گے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ’روسی فیڈریشن کی سٹریٹجک نیوٹرلائزیشن‘ کے تصور کے نفاذ کی ایک واضح مثال ہے۔ان کی رائے میں روس اب یوکرین پر کیلیبر میزائل داغنے کے لیے اڈے سے بحری جہازوں کو ہٹانے میں زیادہ محتاط رہے گا۔یورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےفائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟یوکرین کے آپریشن سپائڈر ویب میں کتنے بمبار طیارے تباہ ہوئے اور اس سے روس کی جنگی صلاحیت کیسے متاثر ہو گی؟’آپریشن سپائیڈر ویب‘: یوکرین کے ’غیرمعمولی‘ حملے سے انڈیا اور دیگر ممالک کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟سنہ 2014 کے بعد جب بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کو 636.3 کلاس کی چھ آبدوزیں موصول ہوئیں، تو انھیں سواستوپول میں تعینات کیا گیا۔ اینڈری رائزنکو کے مطابق چھ میں سے دو ’وارشویانکا‘ کو روس نے شام پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا جبکہ اسی وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر ان کو لاجسٹک دیکھ بھال کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ لے جایا جا رہا تھا۔بعد میں ان آبدوزوں کو واقعی وہاں سے منتقل کر دیا گیا تھا اور اب صرف چار ایسی آبدوزیں ہی بحیرہ اسود میں موجود ہیں۔2 اگست 2024 کو یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے اعلان کیا تھا کہ یوکرینی افواج نے ’راستو آن ڈان‘ نامی آبدوز کو نشانہ بنایا، جو سواستوپول میں تعینات تھی اور فوجی طلاعات کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں یہ آبدوز ڈوب گئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد ستمبر میں یہ خبر آئی کہ اس آبدوز کو اٹھایا تو گیا تاہم مرمت کا کام ابھی تک شروع نہیں ہوا۔ اینڈری رائزنکو کہتے ہیں کہ اس کے بعد پھر روس نے اپنی ’غلطیوں پر کام کیا۔‘’درحقیقت روس نے پھر وہاں بہت کچھ کیا۔ اس نے سواستوپول اور نووروسیسک میں اڈوں کی حفاظت پر کام کیا۔ انھوں نے خاردار تاروں کی باڑ اور کئی دیگر رکاوٹیں نصب کیں۔ انھوں نے ریڈار لگائے، ایوی ایشن، بحری ایوی ایشن جیسے ہوائی جہازوں، ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کو استعال کیا تاکہ یوکرینی ڈرونز کا پتہ لگایا جا سکے۔‘تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان حفاظتی اقدامات کو روک دیا گیا ہے۔ پانی کے اوپر موجود ڈرونز کے برعکس، جو کم از کم پانی پر نشانات چھوڑ دیتے ہیں، زیر سمندر ڈرون کا پتہ لگانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔اگر آبدوز کو پہنچنے والا نقصان مرمت کے بعد بھی پورا نہیں کیا جا سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ روس کے پاس بحیرہ اسود میں صرف تین آپریشنل آبدوزیں باقی رہ گئی ہیں: دو کلاس 636.3 ’وارشویانکا‘ اور ایک ہالٹس۔اینڈری رائزنکو کے مطابق یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نوووروسیسک میں مزید حملے ہو سکتے ہیں، خاص طور پر سب سے اہم جہازوں میں سے ایک بڑے لینڈنگ جہاز ’پیٹرو مورگنوف‘ پر۔ایس بی یو کے بیان کے مطابق ’سی بیبی سرفیس بحری ڈرونز کے خصوصی آپریشن کی وجہ سے تباہ شدہ آبدوز کو نوووروسیسک کی بندرگاہ میں رکنے پر مجبور کیا گیا، جس نے روسی بحری جہازوں اور آبدوزوں کو عارضی طور پر مقبوضہ کریمیا میں سواستوپول سے بے دخل کر دیا۔‘اینڈری رائزنکو کے مطابق آبدوز 636.3 ’وارشویانکا‘ روس کے لیے ایک اہم جنگی یونٹ ہے، جس کی مدد سے وہ نہ صرف شہری بلکہ فوجی اہداف پر بھی حملہ کرتا ہے۔’لہذا اس طرح کے یونٹ کی تباہی بہت بڑی کامیابی ہے اور مستقبل میں یہ ہمارے نیٹو شراکت داروں کے لیے بھی تحفہ ہے کیونکہ روس نے ایسی آبدوزوں کو بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس میں بھی فعال انداز میں استعمال کیا۔‘بی بی سی نامہ نگار پاول اکسیونوف کا تجزیہاگر روسی آبدوز کی نووروسیسک میں تباہی کی تصدیق ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بحیرہ اسود میں جنگ کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یوکرینی بحریہ نے پہلی بار اتنے اہم ہدف کے خلاف زیر زمین ڈرون کا استعمال کیا۔اس حملے کے نتائج کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ یوکرینی انٹیلیجنس کا دعویٰ ہے کہ روسی آبدوز کو شدید نقصان پہنچا اور اسے ناکارہ کر دیا گیا۔‘ انٹیلیجنس کی جانب سے جاری کردہ فوٹیج کے مطابق دھماکہ آبدوز کے پچھلے حصے کے قریب ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر آبدوز کے رڈرز کو نقصان پہنچا: تین ہوائی جہاز جو آبدوز کی حرکت کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ اسی مقام پر ہوتے ہیں۔ آبدوز کے پروپیلر بھی وہیں ہوتے ہیں اور اگر انھیں نقصان پہنچا تو یہ کافی سنگین ہے۔پراجیکٹ ’وارشویانکا‘ 636 کی ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں سوویت پراجیکٹ ’ہالٹس 877‘ کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں، جو وارسا معاہدے کے ممالک کو مسلح کرنے کے لیے تھا۔یہ منصوبہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا، دونوں منصوبوں کی آبدوزیں مختلف ممالک کو فراہم کی گئیں۔ یہ آبدوزیں چین، انڈیا، ایران اور ویتنام کی بحریہ کا حصہ ہیں۔ ایک آبدوز نیٹو کے ملک پولینڈ کی لڑاکا فورس کا بھی حصہ ہے۔بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کے پاس ایسی چھ آبدوزیں ہیں۔ ایک اور آبدوز راستو آن ڈان کو ستمبر 2023 میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ اسے ’سٹارم شیڈو‘ Storm Shadow کروز میزائلوں نے نشانہ بنایا تھا تاہم بعد میں اس آبدوز کی مرمت کی گئی۔اگست 2024 میں یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے بتایا تھا کہ یہ آبدوز ایک اور کروز میزائل حملے میں تباہ ہو گئی تاہم روس نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔آپریشن سپائڈر ویب: یوکرین کی 117 ڈرونز سمگل کر کے روس میں فضائی اڈوں اور جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے کی بڑی کارروائییورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےفائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟800 سے زائد ڈرونز اور میزائلوں سے یوکرین پر ’سب سے بڑا روسی فضائی حملہ‘ جس میں ’سخت حفاظتی حصار‘ میں واقع اہم عمارتیں پہلی بار نشانہ بنیںیوکرین کے آپریشن سپائڈر ویب میں کتنے بمبار طیارے تباہ ہوئے اور اس سے روس کی جنگی صلاحیت کیسے متاثر ہو گی؟’آپریشن سپائیڈر ویب‘: یوکرین کے ’غیرمعمولی‘ حملے سے انڈیا اور دیگر ممالک کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟