
آسٹریلیا کے ساحل بونڈی بیچ پر یہودی برادری کی ایک تقریب کے دوران ہونے والے حملے نے جہاں درجنوں خاندانوں کو سوگ میں مبتلا کر دیا وہیں انسانیت کی ایک روشن مثال بھی سامنے آئی۔ حملے کے دوران ایک مسلم پھل فروش احمد الاحمد نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش کی اور متعدد افراد کی جانیں بچا لیں۔
عینی شاہدین کے مطابق احمد الاحمد جو موقع پر پھل کا اسٹال لگاتے تھے نے فائرنگ کے باوجود حملہ آور پر جھپٹ کر اسے دبوچ لیا۔ اس دوران انہیں بازو اور ٹانگ میں گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہو گئے۔ احمد کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ اس وقت انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ احمد الاحمد کی جان خطرے سے باہر ہے تاہم ان کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق ان کے بائیں بازو کو شدید نقصان پہنچا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا بازو کھو سکتے ہیں جبکہ ایک گولی تاحال ان کے کندھے کے پیچھے پھنسی ہوئی ہے۔
گزشتہ روز آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز سڈنی نے اسپتال میں احمد کی عیادت کی اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ حال احوال دریافت کیا۔انتھونی البانیز نے آسٹریلوی عوام کی طرف سے بھی احمد کا شکریہ ادا کیا۔
@@3828799@@
آسٹریلوی حکومت نے احمد الاحمد کے علاج کے لیے مکمل تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں جدید ترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور اگر ضرورت پڑی تو بیرون ملک علاج سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب ان کے علاج کے لیے آن لائن فنڈ ریزنگ مہم میں لاکھوں ڈالرز جمع ہو چکے ہیں جبکہ ایک امریکی تاجر نے بھی ان کے لیے ملین ڈالرز انعام کا اعلان کیا ہے۔
47 سالہ احمد الاحمد شام میں پیدا ہوئے اور 2006 میں بہتر مستقبل کی تلاش میں آسٹریلیا آئے۔ طویل جدوجہد کے بعد انہیں 2022 میں آسٹریلوی شہریت ملی۔ وہ دو کمسن بیٹیوں کے والد ہیں، جن کے لیے وہ ایک شفیق باپ اور آج پورے آسٹریلیا کے لیے ایک دلیر ہیرو بن چکے ہیں۔